• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب پچھتاوے کیا ہوت کا محاورہ مجھے چوہدری فواد حسین کے اُس ٹویٹ پر کسنا پڑا جو اُنھوں نے پنجاب اسمبلی کی رُکن محترمہ رُخسانہ کوثر کی اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد کے ردِّعمل میں کیا تھا۔ محترمہ کا وفاقی حکومت سے مطالبہ تھا کہ ’’داڑھی مبارکہ کی ڈیزائننگ کروانے والوں اور متعلقہ حجام کے خلاف سخت کارروائی کی جائے‘‘، جو داڑھی کو مختلف طرح سے ترشواتے ہیں۔ چوہدری فواد کے طنز کے تیر کیسے ترکش میں چین سے بیٹھتے، وہ بھڑک کر بولے کہ ’’یہ خاتون سُپر مسلمان بننے کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ گئی ہیں... ان کے ہوتے ہوئے اسلام کو کسی بیرونی سازش سے کوئی خطرہ نہیں، خود ہی کافی ہیں‘‘۔ خالص تر اور اصل اسلام کے کھوج اور اس کی فرقہ وارانہ دوڑ میں نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر ہمارے مسلمان بھائی جانے کیسی کیسی دقیانوسی اور فروعی بحثوں سے جانے کیسے کیسے فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے۔ اور دُنیا صنعتی و سائنسی و اطلاعاتی اور مصنوعی ذہانتی انقلابات کے بعد کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ویسے بھی ہمیں دُنیاوی ترقی کی چکاچوند سے کیا غرض اور ویسے بھی مادیت و سائنس سے مابعدالطبیعیات اور دقیانوسیت کا کیا لاحقہ؟ اب فواد چوہدری کی منحنی سی وزارتِ سائنس چاند کے بیک وقت سورج اور زمین کے گرد متعین طبیعیاتی چکر کی بنیاد پر کیسی ہی پیش بینیاں کرے، ننگی آنکھ یہ ماننے سے رہی، دُوربینوں کی محتاجی کے باوجود۔ بیچاری ایم پی اے پہ فواد چوہدری کی پھبتی پر مجھے بھی عادت سے مجبور ہوتے ہوئے ٹویٹ کرنا پڑا کہ: ’’یہ سب ہمارے پُرکھوں، بانیوں جیسے لیاقت علی خان، فوجی آمروں جیسے جنرل ضیاالحق، عوامی رہنمائوں بھٹو اور نواز شریف، ججوں، مُلائوں، ایجنسیوں، نظریہ پاکستان کے جعلی ڈھنڈورچیوں کا کیا دھرا ہے۔ اور اب خیر سے عمران خان‘‘۔ ضعیف الاعتقادی اور ملوکیت کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ وہی علمائے دین پاکیٔ داماں بچا پائے جو دربار سے دُور رہے۔ جس شریعت کا ہم مطالبہ کرتے نہیں تھکتے وہ چاروں فقہا زیرِعتاب رہے اور جن سائنس دانوں کے قصے بیان کرتے ہم فخر کرتے نہیں تھکتے، سبھی کے سبھی راندئہ درگاہ ہوئے۔

ٹویٹ سے بات چلی ہے تو ایک اور ٹویٹ کا ذکر ہو جائے۔ متبادل کے متبادل کی جگہ پٹھو کی بحث کی تکرار میں جو لایعنی بحث چل نکلی تو میں نے بھی ایک ٹویٹ سوشل میڈیا کی خلفشار کی نذر کرتے ہوئے لکھا: ’’جمہوریت آئی، نہ آئینی حکمرانی چلی۔ تینوں بڑی پارٹیوں کی معاشی، خارجی و سلامتی پالیسیاں بھی ایک جیسی ہیں۔ سویلین بالادستی اب خیال بن کر رہ گئی اور رہنمائوں کی لڑائی بھی اب یہ رہ گئی کہ کون پٹھو بنے۔ مملکتِ خداداد میں کچھ بھی ممکن ہے۔ اور کیا ہے کہ جس کا یہاں تجربہ نہیں کیا گیا۔ اسلام کی تجربہ گاہ تو ہم اسے خوب بنا چکے اور یہ خواب چکنا چور ہونے کے باوجود پیر تسمہ پا کی طرح ہمارے فکر و خیال پہ سوار ہے۔ ابتداً وائسرائی نظام گورنر جنرل کی صورت اختیار کر گیا جس سے پارلیمانی جمہوریت تو رسوا ہوئی ہی تھی، لیکن اُس کے بطن سے برآمد ہوئے بھی تو فیلڈ مارشل ایوب خان، اُن کا بی ڈی سسٹم اور ریاستی سرپرستی میں سرمایہ داری کا ایسا ماڈل جس کے گھڑے سے چند ٹپکے عوام کی بھوک پیاس مٹانے کو کافی سمجھے گئے۔ پھر مردِ مومن مردِ حق کا طویل اسلامی دَور مسلط ہوا اور ہر طرف جہادی فیکٹریاں جہادیوں کی پیداوار پہ لگ گئیں۔ سلامتی کے تقاضے ہر سو پھیل گئے لیکن معیشت کی کوئی ٹھوس بنیاد پڑی نہ انٹرپرینیورشپ کہیں نظر آئی اور آج اس دست نگر ہیرا پھیری والی سرمایہ داری کے بطن سے برآمد ہوئیں بھی تو ہر سو پھیلتی مافیاز۔ دوسری طرف اداراتی نوآبادیات فروغ پائیں جن پر ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ کی پھبتیاں کسنے پہ پرانے درباری بھی فارغ ہوئے۔ صدارتی نظام چلا نہ پارلیمانی نظام چل پا رہا ہے۔ مضبوط مرکز لخت مملکت کا باعث ہوا بھی تو وفاقیت جدید نوآبادیاتی نوکرشاہانہ ڈھانچوں کو قبول نہ ہوئی۔ اصل نتیجہ یہ ہے کہ کچھ چل نہیں پا رہا اور سب کے نسخے ایک جیسے اور پٹے پٹائے۔ معاشی پالیسی ہی کو لے لیں، معاشی پالیسیوں میں جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی فوجی حکومتیں تھیں یا پھر گیلانی اور شریف کی حکومتیں، تھوڑے بہت فرق کے ساتھ سبھی ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے تھے۔ اب معاملہ یہاں آن پہنچا ہے کہ پرانا معاشی ڈھانچہ چل رہا ہے، نہ اس میں یہ سکت ہے کہ ایک بھاری بھر کم طفیلی ریاست کے آہنی ڈھانچوں کا بوجھ اُٹھا سکے۔ آخر عمران خان کا متبادل بننے کے خواہاں حضرات کے پاس وہ کونسا سیاسی و معاشی اور سماجی متبادل ہے کہ عوام اُس جانب لپکیں۔ عوام کے لیے پھر تو ہر نئی گھڑی پرانی گھڑی سے بدتر ہے۔ پھر بد سے بدتر کے درمیان چنائو کیسا؟ سارے کا سارا نظام اور آوے کا آوا بگڑا پڑا ہے۔ ایسے میں کسی ایک اور مسیحا کی ممکنہ آمد پر استغفار پڑھنے کے سوا کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ حقائق تھے جنہوں نے میری توجہ اک نئے ممکنہ مرکب کی جانب مبذول کروائی۔ سب کہہ رہے ہیں کہ ادارے تباہ ہو گئے اور سبھی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی ادارہ بچا بھی ہے تو صرف فوج۔ سبھی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چین ہی صرف ہمارا مددگار ہے اور چین کا آمرانہ ریاستی سرمایہ دارانہ نظام اور عوامی خوشحالی کے چینی سوشلسٹ ماڈل کا ڈنکا کورونا کی قیامت میں بھی بج رہا ہے تو کسی نے کسی کے کان میں کہا کہ اس کا امتزاج کیسا رہے گا اور ایسی سرگوشی اس وقت ہو رہی ہے جب ’’چڑیاں چُگ گئیں کھیت!‘‘۔

تازہ ترین