• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان نے اپنی تاریخ کا زیادہ حصہ فطرت کی گود میں بسر کیا ہے جہاں زمین اس کا گھر اور آسمان چھت ہوا کرتا تھا۔ سبز گھاس اس کا بچھونا اور پتے اس کا لبادا ہوتے تھے۔ پھل، سبزیاں اس کی خوراک اور پانی واحد مشروب تھا۔ وہ تنہائی میں بھی اکیلا نہیں تھا کیونکہ ہر سمت فطرت اُس کی ہمنوا تھی۔ آبشار، گھٹائیں، بادل اور ہوائیں اُس سے کھیلتے اور موج مستی کرتے تھے۔ پرندے نئے موسموں کی بشارت کے ساتھ ساتھ خطروں سے بھی آگاہ کرتے تھے۔ سرد راتوں میں وہ زمین کی گرم آغوش میں پناہ لیتا تو گرمیوں کے موسم میں کھلے آسمان تلے چاند تاروں سے مکالمہ کرتا تھا۔ فطرت اور اُس کے درمیان شناسائی بہت گہری تھی اور دونوں ایک دوسرے پر نہ صرف مہربان تھے بلکہ باہم یکجا تھے کہ انسان بھی اُسی کا حصہ تھا اس لئے اُس کی تمام رعنائیوں تک اُس کی رسائی تھی۔ وہ فطرت کا بے پناہ حُسن اپنے وجود میں جذب کر کے توانائی حاصل کرتا ، اُس کا دل کھلتے گلاب کی طرح شاداب اور روح خوشبو کی طرح آسودہ اور سرشار تھی۔ رُوح کو قید ہونا پسند نہیں وجود کی قید ہی اُس کیلئے بہت ہے فطرت سے کٹ کر وہ پژمردہ ہو جاتی ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ فطرت اور فطرت اُس کی زبان سے آشنا ہے، دونوں ایک ہی خالق کے مظہر ہیں اور دونوں میں ایک ہی روح کے جلوے ہیں۔ اس لئے صوفیائے کرام ریاضت اور توجہ کو ایک نکتے پر مرکوز کرنے کیلئے فطرت کے حسین نظاروں سے مزین مقام پر قیام کرتے تھے۔ انسان کی ذہنی اور فکری کاوشیں نئی نئی ایجادات کا باعث بنیں اور حیوان عاقل ہونے کے باعث یہ سب بھی فطری تھا مگر رفتہ رفتہ حفاظت کے تصور نے کھلے آسمان اور وسیع احاطے کو ترک کر کے اُسے ایسی چار دیواری کے اندر محبوس کر دیا جہاں نہ صرف آسمان، چاند ستارے اور وسیع کائنات کے دیگر نظارے اُس کی نظروں سے اوجھل ہوئے بلکہ یہ چار دیواری اُس کے بدن کے ساتھ ساتھ روح پر بھی محیط ہوگئی، اس چار دیواری نے زمین سے بھی اُس کا رابطہ منقطع کر دیا۔ اب جوتوں اور جرابوں میں ملبوس اُس کے پاوٴں زمین کا لمس محسوس کرنے سے محروم ہیں۔ گھر کے اندر بھی وہ زمین کی حرارت اور ٹھنڈک محسوس نہیں کر سکتا کیونکہ اُس کے پاوٴں زمین کو چھونے کے بجائے سنگ مر مر کی سخت سلوں پر پڑتے ہیں جہاں سے اپنائیت کی کوئی صدا نہیں اُبھرتی اِس صورتحال میں آج کا انسان اپنی اصلیت سے بچھڑنے کے غم میں مبتلا ہے جسے وہ مختلف بیماریوں اور ڈپریشن کا نام دیتا ہے۔ وہ ہجوم میں گم ہو کر خود کو ہی بھولنے لگا ہے تو پھولوں، پودوں، درختوں ندیوں اور پرندوں سے مکالمہ تو دُور کی بات ہے۔
لیکن دیواروں میں قید ہونا انسان کی سرشت نہیں فطرت سے بچھڑ کر صحت مند زندگی گزارنا ممکن نہیں اس لئے آج بھی غیر شعوری طور پر اس کے اندر فطرت کی ہمنوائی کی شدید تمنا ہر وقت رہتی ہے۔ انسان کی اتنی کج ادائیوں کے باعث فطرت نے بھی اپنے حُسن اور عطاوٴں میں کوئی کمی نہیں کی۔ اب بھی پھول کھلتے ہیں جو اس بات کا اعلان ہیں کہ یہ زمین تخریب کے باعث بنجر نہیں ہوئی۔ پھولوں کی خوبصورتی اور خوشبو اس بات کی علامت ہیں کہ زمین میں اتنی طاقت موجود ہے کہ وہ ہر قسم کے شر کا حصار توڑ کر زندگی اور خوبصورتی کو جنم دے اور جس سر زمین میں پھول کھلتے ہوں وہاں کے باسیوں کے دل اور ذہن کیسے مردہ ہو سکتے ہیں۔ اُن کے دلوں میں اجتماعی خیر کے جذبے ہیں اور ذہنوں میں عقل و فکر کی تازہ اور تعمیری صورت جلوہ گر ہوتی ہے۔ شاعری، مصوری، آرٹ اور ہر قسم کی سچی تخلیق فکر کے پھولوں کی مانند ہی ہے۔ جب تک دل، دماغ اور زمین پھولوں کی آبیاری کرتے رہیں گے دنیا امن، محبت اور شائستگی کا سفر جاری رکھے گی۔امریکہ میں مقیم معروف شاعر ڈاکٹر سید انوار احمد نے بہار کے موسم میں لاہور میں اپنی کتاب ”گلاب کھلتے ہیں“ کی رونمائی رکھی تو یوں محسوس ہوا جیسے گلوں کی نمائش کا پروگرام ہو۔ ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر خواجہ ذکریا، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر اختر شمار، ڈاکٹر ضیاء الحسن، ولید اقبال اور فرحت پروین جیسی صاحب علم و فکر ہستیوں کی گفتگو بھی حکمت، علم اور ادب کے تازہ کھلے گلابوں کی مہک سے معمور تھی۔ وطن سے ہزاروں میل دور ایک سر زمین غیر میں سکونت پذیر پاکستانی شاعر اپنی جنم بھومی پر کھلتے گلاب دیکھنے کی آرزو کو لفظوں میں پرو کر ہر لمحہ خیر کا ورد کرتا رہتا ہے اور یہ ورد نظموں اور غزلوں میں ڈھلتا جاتا ہے۔ وطن کی بدحالی اُسے میسر تمام خوشحالی میں بھی ہر لمحہ بے چین رکھتی ہے۔ ایک عجب دھیما دھیما دکھ اور ہجر کی کیفیت پوری شاعری میں سرائیت کئے ہوئے ہیں مگر ڈاکٹر انوار احمد اس دکھ کو کوئی نام نہیں دیتے شاید وہ شعوری طور پر اختیار کردہ ہجرت کو پچھتاوے کی کسک سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں لیکن اِس دکھ نے شاعر کی خواب راتوں کو جو رت جگے عطا کئے ہیں یہ شاعری اُنہی کی مرہون منت ہے۔ جس میں خواب بھی ہیں، محبوب کی یادیں بھی ہیں، اپنوں سے گلے بھی ہیں، غیروں سے شکایات بھی ہیں، تلخ حقیقت کی جھلک بھی ہے اور ایسی زندگی کا تصور بھی جس کی آرزو ہر انسان کے دل میں پنپتی ہے لیکن اِس سب کے ہوتے ہوئے کوئی چیز، کوئی خیال، کوئی خواب، نعرے، بین، آہ و بکا اور شور کی بھینٹ نہیں چڑھا۔ ہر نظم اور غزل میں شعریت کا حُسن جمالیاتی ذوق کی تحسین کرتا محسوس ہوتا ہے۔ ”گلاب کھلتے ہیں“ کا مصنف خوش قسمت ہے کہ اُس نے دبستانِ لاہور سے توثیق کی سند حاصل کر لی ہے۔ اللہ کرے اُس کی فکر کے گلاب ہمیشہ کھلتے رہیں اور وطن میں ہر سُو کھلتے گلاب دیکھنے کی آرزو بر آئے۔ ویسے لاہور میں آج کل پھولوں کا موسم عروج پر ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر آویزاں ایک عرصے سے لوہے کے بڑے بڑے بورڈ جو عجیب سی گھٹن کا باعث تھے ان کی جگہ اب ہر سو پھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔ لاہور میں پھول واپس آنے سے زندگیوں میں پھول واپس آگئے ہیں۔ دُعا ہے کہ لاہور کی طرح پورا پاکستان لوہے کے بورڈز اور چار دیواری کے عفریت سے نکل کر پھولوں کی آغوش میں چلا جائے اور پھولوں کی نرمی ہمارے مزاجوں میں سرائیت کر جائے اور فضا پھر سے محبت اور امن کے گیت گنگنانے لگے۔ آئیے اپنے گھر، دفتر اور کارخانے میں فطرت کی طرف کھلنے والی کھڑکی تعمیر کریں اور فطرت کے ساتھ اپنا رابطہ پھر سے بحال کریں۔
تازہ ترین