• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طریقۂ واردات بہت دلچسپ ہے کہ تقرریوں اور تبادلوں سے لے کر ٹھیکوں کی بندر بانٹ تک بھائیوں کو آگے کیا ہوا ہے، خود کسی لین دین میں ملوث نہیں اس لئے بجا طور پر حلفاً کہہ سکتا ہے کہ وہ کسی چوری حرام خوری میں ملوث نہیں۔

یہ ہے پنجاب کی جمہوری دیگ کا صرف ایک دانہ جسے چاہیں تو ’’دانا‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وارداتیں فول پروف ہیں لیکن جہاں حکومتیں ہاتھ کرنے سے باز نہ آئیں وہاں افراد کس کھاتے میں؟

گڈ گورننس کے جھنڈے گاڑنے والی حکومت نے پی ٹی وی فیس 35سے بڑھا کر 100روپیہ کر دی ہے تو میں سوچ رہا ہوں کہ اگر 500بھی کر دیتے تو عوام اس ’’گن پوائنٹ‘‘ وصولی کا کیا بگاڑ لیتے؟ بات 100 روپے کی ہرگز نہیں، بے رحمانہ، سفاکانہ اور لا تعلقانہ سرد مہر حکومتی رویے کی ہے کہ جہاں سے جو کچھ نچوڑا جا سکتا ہے نچوڑ لو، جو بھنبھوڑا جا سکتا ہے بھنبھوڑ لو کہ عوام تو پیدا ہی ’’خراج‘‘ کی ادائیگی کے لئے ہوئے ہیں۔

پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان میرا رومانس ہیں جس کی تفصیل پھر کبھی۔ فی الحال صرف اتنا کہنا ہے کہ مدتیں بیت گئیں میں نے کبھی کہیں پی ٹی وی نہیں دیکھا تو پھر یہ جگا ٹیکس کس خوشی میں؟ پھر وہی بات کہ مسئلہ 100روپیہ نہیں، رویہ کا ہے۔ اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں تک یہی رویے ہمارا اصل روگ ہیں جن میں عام آدمی کے لئے سوائے بے اعتنائی اور حقارت کے کچھ بھی نہیں۔

لمبی لمبی زبانوں پر ’’عوام عوام‘‘ کا ورد تو جاری رہتا ہے، دل میں ان کے لئے کوئی درد نہیں اور شاید اسی ننگے تضاد کی وجہ سے ہر طرف نحوست چھائی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ ’’ورکرز ویلفیئر بورڈ کے پی کے میں بھرتیاں سیاسی یا رشتہ داروں کی کیں‘‘ تو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور ہوں کہ نہ عوام کسی کے رشتہ دار ہیں نہ کوئی ان کا رشتہ دار ہے۔ ادھر ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ ’’جس چیز کا نوٹس لیا جاتا ہے وہ مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے‘‘۔

سر تا پا دعا ہوں کہ اس جمہور دشمن جمہوریت کا بھی ’’نوٹس‘‘ لے لیا جائے۔’’اوپن مارکیٹ سے گندم غائب۔ چکی آٹا بھی 70روپے کلو ہو گیا‘‘ یعنی قدم قدم پر ہمدم دیرینہ صلو ہی سچا ہے جو کینیڈا سے کال کر کے سب سے پہلے یہ پوچھتا ہے.....’’پاکستان سے کوئی خیر کی خبر تو نہیں؟‘‘ ادھر وزیر اعلیٰ کے ایک دست راست صوبائی وزیر کی فراغت پر مجھ جیسے کودن کو پہلی بار علم ہواکہ ایک وزارت ’’جنگلی حیات‘‘ کی بھی ہوتی ہے۔ خبر پڑھ کر دیر تک ہنستا مسکراتا اور سوچتا رہا کہ ہمارے ہاں اصل وزارت تو ہے ہی ’’جنگلی حیات‘‘ کہ یہاں ’’جنگلی حیات‘‘ کے علاوہ بچا ہی کیا ہے؟

’’ انسانی حیات‘‘ تو دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ جنگلوں سے کہیں بڑھ کر ’’جنگلی حیات‘‘ کا دور دورہ ہے کہ یہاں تو وہ وہ کچھ بھی سرعام ہو رہا ہے جس کا جنگلوں میں نام و نشان تک نہیں ہوتا لیکن بدبو دار خبروں کے ہجوم میں چند خوشبودار خبریں بھی ہیں مثلاً امریکی مصنف، ماہر تعلیم اور معاشی تجزیہ کار ڈیوڈ مارٹن کے منہ میں گھی شکر جن کا کہنا ہے کہ....’’پاکستان بہت جلد ترقی یافتہ ملک بن کر ابھرے گا کیونکہ یہ ملک خطہ میں اک ایسی جگہ پر واقع ہے کہ آنے والے عشروں میں یہ عالمی معیشت میں انتہائی اہم اور فیصلہ کن تبدیلیاں لانے کا باعث بن سکتا ہے۔

پاکستان میں 30سال سے کم عمر افراد کی تعداد 100ملین کے قریب ہے جو زندگی میں تبدیلیاں لانے کے لئے بے حد پُر جوش ہیں۔ مزید کہا کہ پاکستان ایشیا کے ان نو (9) ممالک میں شامل ہے جو آئندہ 35سال میں چین کی طرح ابھر سکتے ہیں اور یہ عالمی معیشت میں ایک تاریخ ساز موڑ ہو گا۔

یہ کہنا بھی غلط ہے کہ افغانستان، ایران، بھارت کی وجہ سے پاکستان پیچھے رہ گیا‘‘ڈیوڈ مارٹن کی اس پیش گوئی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک میں ہائوزنگ تعمیرات کے لئے جو پیش رفت ہوئی ہے اور اس کے لئے 30ارب روپے کے جو فنڈز مختص کئے گئے ہیں اور بینکوں پر 18ماہ میں 330ارب روپے کی جو سرمایہ کاری لازمی قرار دی گئی ہے۔

اگر یہ پیکیج صحیح طریقہ سے ہینڈل کر کے اسے پاکستان کی ’’جنگلی حیات‘‘ سے بچا لیا گیا تو ملکی معیشت توبہ شکن انگڑائی لے کر بیدار ہو سکتی ۔ادھر آئی ایم ایف کا بھی یہی اندازہ ہے کہ آئندہ سال تک پاکستانی معیشت کی بحالی کے امکانات خاصے روشن ہیں کیونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں صحیح سمت میں موثر مالیاتی اقدامات پر عمل پیرا ہیں۔

لاک ڈائون میں بتدریج نرمی نے بھی معیشت کو کاری ضرب سے بچا لیا ہے۔یہ سب اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں بشرطیکہ ’’جنگلی حیات‘‘ کو انسانی اور شہری حیات پر حاوی ہونے سے روکا جا سکے کیونکہ خود حکومتی صفوں میں بہت سی جونکیں اور ایسے معصوم صورت چوہے موجود ہیں جو اب بھی ’’کترنے‘‘ سے باز نہیں آ رہے۔ ایسا ایسا باریک بخیہ لگایا جا رہا ہے کہ قصے سن کر بے ساختہ داد دینے کو بھی جی چاہتا ہے۔

دشمنوں سے نہیں ’’دوستوں‘‘ سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ صرف اتنا یقینی بنا لیں کہ ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ والی سچوئشن پیدا نہ ہو اور ’’جنگلی حیات‘‘ جنگلوں تک محدود رہے تا کہ شہری حیات محفوظ رہ سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین