• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کی اپنی تاریخ لاکھوں کروڑوں برسوں پر محیط ہے۔ جتنی تاریخ آج کے انسان کو میسر ہے، اس میں ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ مرجانے کے بعد کوئی شخص پھر سے زندہ ہوکر واپس آیا ہو اور اس نے مفصل بتایا ہو کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے۔ مرجانے کے بعد اس نے کیا دیکھا؟ مرجانے کے بعد اسے کن حالات سے گزرنا پڑا؟ مرجانے کے بعد واپس آکر بعد ازموت کی باتیں بتانے والے کسی شخص کی ایک مثال انسان کی اپنی پوری تاریخ میں نہیں ملتی کچھ بک سیلرز،کچھ پبلشرز نے مجھے بتایا ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے ’’مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے‘‘، جیسے موضوع پر شائع ہونے والی کتابیں پاکستان میں سب سے زیادہ بکتی ہیں۔ یہ بات میں نے اتنی مرتبہ سنی ہے کہ اب مجھے حیرت نہیں ہوتی۔ انسان کا تخیل اور تخلیقی تصور اس قدر زرخیز ہوتا ہے کہ وہ ان ہونی کو ہونی ہوتے ہوئے دکھا سکتا ہے۔ آپ نے پریوں اور جنوں کی دیومالائی کہانیوں کے قصے سنے ہونگے۔ آپ جو چاہیں، ان کہانیوں میں لکھ سکتے ہیں۔ جنوں اور پریوں کے خیالی دیس کے پس منظر میں آپ جو چاہیں اپنی کہانیوں میں گھڑ سکتے ہیں۔ کوئی آپ سے استفسار کی جرات نہیں کر سکتا۔ استفسار ، پوچھ گچھ توتب ہوتی ہے جب کسی نے جنوں اور پریوں کا دیس دیکھا ہو۔ لہٰذا، جنوں اور پریوں کے دیس کے بارے میں آپ جو چاہیں بغیر جھجھک لکھ سکتے ہیں۔ خیالی پلائو پکانے اور بیچنے پر پاکستان میں کسی قسم کی پابندی لگی ہوئی نہیں ہے۔ جس قدر آپ چٹ پٹا پلائو پکائیں گے، اسقدر بکے گا۔

مگر انڈونیشیا اور انڈونیشیا کے مشہور جزیرہ بالی کے بارے میں جو من گھڑت قصے آپ لکھنا چاہتے ہیں، آپ نہیں لکھ سکتے۔ جنوں اور پریوں کے خیالی دیس کی طرح جزیرہ بالی خیالی جزیرہ نہیں ہے۔ جزیرہ بالی جغرافیائی حقیقت ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں نے دیکھا ہے۔ آپ جب چاہیں وہاں جا سکتے ہیں۔ آپ وہاں رہ سکتے ہیں۔ وہاں کے چپے چپےکا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ آپ وہاں کی تصویریں کھینچ سکتے ہیں۔ آپ وڈیو بناسکتے ہیں۔ وطن واپس آنے کے بعد جزیرہ بالی کے بارے میں آپ اپنے مشاہدات سب کے ساتھ شیئر کرسکتے ہیں۔ دوست احباب کو وہاں کی تصویریں اور وڈیو دکھا سکتے ہیں۔ جزیرہ بالی کو آپ خیالی پلائو کی طرح نہ تو پکا سکتے ہیں اور نہ بیچ سکتے ہیں۔ مگر موت کے بعد کے مناظر پر مبنی مسالا دار خیالی پلائو آپ پکا سکتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بیچ سکتے ہیں۔ ویسے بھی سنسنی خیز باتیں عام طور پر لوگوں کو اچھی لگتی ہیں۔ دنیا بھر میں ڈرائونی فلمیں بڑی چاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ مرنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ انسان بے بس ہے۔ اپنی بے بسی چھپانے کے لیے وہ سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتا ہے۔ ہم جیسے مجذوبوں کے لیے سنی سنائی باتوں پر یقین کرلینا مشکل ہے۔بڑے خوش نصیب ہوتےہیں وہ لوگ جو سنی سنائی باتوں کی ڈھارس پر زندگی گزار دیتے ہیں۔ منزل کے تعین کے بغیر جبراً سفر پر روانہ ہونا اعصاب شکن ہوتا ہے۔ کوئی شخص اپنی مرضی سے ایسے سفر پر روانہ نہیں ہونا چاہتا جہاں سے واپس لوٹ آنا امکان سے باہر ہوتا ہے۔ مگر ہمارے چاہنے ،نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ ایک روز ہم سب کو روح فنا کردینے والے پر اسرار سفر پر روانہ ہونا ہے۔پر اسرار سفر پر روانہ ہونے کی دہشت ہم تب محسوس کرتے ہیں جب وقت آنے پر ہم خود پر اسرار سفر پر روانہ ہورہے ہوتے ہیں۔ اس وقت کے آنے سے پہلے ہم پر اسرار سفر کی دہشت محسوس نہیں کرتے۔ ہم اپنے پیاروں کو آخری سفر پر روانہ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ غم سے نڈھال ہوجاتے ہیں ۔ روتے ہیں، بلکتے ہیں۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے ایک ایک لمحہ کو یاد کرکے تڑپ اٹھتے ہیں۔ مگر اس تمام بپتا کے دوران ایک لمحے کے لیے ہمیں خیال نہیں آتا کہ کسی دن ہم خود جدائی کے دردناک لمحے سے گزر کر پر اسرار سفر پر روانہ ہونگے۔ یہ خیال اسقدر بھیانک ہے کہ اگر پورے یقین کے ساتھ آجائے تو شاید ہم برداشت نہ کرسکیں۔ اللہ سائیں کی کائنات میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سفر آخرت کے الوداعی لمحوں کو شدت سے محسوس کرنے کے بعد بن باس لے لیتے ہیں۔ تنہائیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ دنیا کو چھوڑ چھاڑ تیاگی بن جاتے ہیں۔ مگرہم عام آدمی ایسی کیفیت سے نہیں گزرتے ۔ پر اسرار سفر پر روانہ ہونے والوں سے بچھڑنے کا غم ہمیں گھائل کردیتا ہے۔ تب ہم سب زبانی کلامی کہہ تو دیتے ہیں کہ موت برحق ہے۔ ایک نہ ایک دن سب کو اس دنیا سے جانا ہے۔ مگر کہی ہوئی بات الوداعی لمحوں کو شدت سے محسوس ہونے نہیں دیتی۔ موت اور مرنے کے موضوع پر ہونے والی تحقیقات میں ایک انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ ہم سب کے شعور میں ایک دفاعی عنصر کام کرتا رہتا ہے۔ دفاعی عنصر ہمیں یقین دلواتا رہتا ہے کہ میں نہیں مرسکتا ۔ میں نہیں مرسکتا۔ موت اور مرنے کی باتیں کرنے سے دفاعی عنصر اور زیادہ مضبوط ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے پیاروں کو پر اسرار سفر پرروانہ ہونے سے پہلے دردناک لمحوں سے گزرتے ہوئے دیکھ کرہمیں کبھی بھی خیال نہیں آتا کہ ایک روز ہمیں بھی اسی کرب سے گزر کر سفر آخرت پر روانہ ہونا ہے۔

مندرجہ بالا عبارت اس مندرجہ ذیل پیرا گراف کا ابتدایہ ہے۔ پچھلے ہفتہ خالد وزیر انتقال کرگئے۔ ہم ہمعصرتھے کمال کا دور تھاوہ۔ خالد وزیر اور والس میتھیاس سینٹ پیٹرکس اسکول کراچی کے لیے کھیلتے تھے۔ حنیف محمد اور محمد مناف سندھ مدرسہ اسکول کراچی کےلیے کھیلتے تھے۔ یہ فقیر اور عبدالرحیم قاضی این جے وی ہائی اسکول کراچی کے لیے کھیلتے تھے۔ عبدالرحیم قاضی آگے چل کر سندھ ہائی کورٹ کے جج بنے تھے ۔ سب ایک ایک کرکے چلے گئے، خالد وزیر، والس میتھیاس، حنیف محمد، محمد مناف اور عبدالرحیم قاضی۔ پیچھے رہ گیا ہے یہ آپ کا فقیر۔ اب میری باری ہے۔ ایسا لگتا ہے۔

تازہ ترین