• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ’’بہترین آمریت‘‘ کا عشرہ (2008-1999)ختم ہونے پر جب ملک میں پیپلز پارٹی کا پانچواں دور (2013-2008)بذریعہ این آر او (مشرف حکومت کا پیدا کیا آخری ڈیزاسٹر) شروع ہوا تو اس کا شدت سے ’’کفارے کا دور‘‘ ہونا مطلوب تھا۔ ادائیگی آسان تر تھی کہ 1972تا 1996پارٹی کے چار ادوار میں اپنی کامیابیوں، ناکامیوں اور ڈیزاسٹر کا جو تجربہ اور سیاسی فہم پی پی کے پاس تھی کوئی اور ملکی جماعت اس کی ہم پلہ نہ تھی۔ مسلم لیگ کے ادوار تو مختلف دھڑوں کا رنگ اختیار کرتے رہے۔ ان کے اپنے اپنے تشخص تھے اور تجربات بھی مختلف۔ (ن) لیگی دھڑا بنا تو، مسلم لیگ، بس (ن) لیگ ہی بنتی گئی، قیادت کے بعد اگر کچھ جگہ کسی کو ملی بھی تو خاندان کو۔ بحالیٔ جمہوریت برائے ’’بدترین جمہوریت‘‘ کے بعد ستم یہ ہوا کہ پی پی کا 5واں دور ’’کفارے کا دور‘‘ تو کیا بنتا ملکی تاریخ کا ایک اور بڑا ڈیزاسٹر رجیم ثابت ہوا۔ آئی پی پیز (بجلی پیداکرنے والی نجی کمپنیاں) پی پی کے چوتھے دور کا عوام کو دیا گیا ’’اذیت ناک‘‘ تحفہ تھا، پی پی کی الیکشن 2008میں انتخابی فتح کا سب سے بڑا مالِ غنیمت ثابت ہوا، پی پی حکومت نے اپنے مکمل کئے دور میں ملک کو اندھیروں میں بھی غرق کیا اور آنے والی حکومت کو 500ارب روپے کا مقروض کرکے رخصت ہوئی تو ملک میں غضبناک کرپشن کے خلاف کہرام مچا ہوا تھا۔ گویا دور بدترین دھما چوکڑیوں کی ایک نئی مثال قائم کر گیا۔

ستم بالائے ستم ’’این آر او کا ثمر‘‘ (ن) لیگ کا تیسرے دھما چوکڑی دور ’’سیاسی رواداری‘‘ کے باکمال مظاہرے سے شروع ہوا۔ آغاز پر ہی جاری اسٹیٹس کو (نظامِ بد) پر باہمی کامل اتفاق کی تصویر روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی۔ صدر مملکت جناب آصف زرداری کے نئی حکومت کی جانب سے رخصتی ظہرانے پر مہمان خصوصی نے جمہوریت میں اپوزیشن کی حکومت کے خلاف روایتی بےرحمی کو ترک کرنے اور 5سال تک میزبان کو آرام سے حکومت کرنے کا واضح سگنل دیا، چند ہی دنوں میں نئی نویلی حکومت کی جانب سے عَلانیہ فرینڈلی اپوزیشن کے جواب میں ’’ترکِ ارادۂ احتساب‘‘ کی بلنکنگ شروع ہو گئی۔ احتسابی عمل کی امکانی تصویر جو (ن) لیگ کے انتخابی جلسے جلوسوں میں دکھا کر فقط ووٹ کو (ووٹر کو نہیں) عزت بانٹی جاتی رہی، اس پر پی پی دور میں دھما چوکڑی مچانے والوں کے دل بھی دہل رہے تھے۔ جبکہ (ن) لیگ کو بھی اپنے پہلے دو ادوار کا کفارہ تو ادا کرنا لازم تھا ہی، بلکہ پی پی کے ختم ہونے والے دور کی دھما چوکڑیوں سے جمہوریت کے اعتماد اور پاکستان میں اس کے عوام دشمن ہونے کی ایک بار پھر جو تصدیق ہوئی تھی اسے ریورس کرنا یا کم از کم، کم تر کرنا بھی اب (ن) لیگ کی ہی سیاسی اور جمہوری ذمے داری تھی، لیکن وہ تو گورننس کے اپنے پرانے ہی لیکن ’’کامیاب‘‘ماڈل ’’کھائو بھی لگائو بھی‘‘ کے ساتھ ہی وارد ہوئی، پی پی کی پیدا کی گئی گورننس کی آلودگی کو شفاف کرنے کے بجائے دھما چوکڑی کے نئے نئے انداز اختیار کئے اور فرینڈلی اپوزیشن اور اس کے ساتھ اس باہمی ایجنڈے پر کامل اتفاق تو (ن) لیگ کے آغاز حکومت پر ہی ہو گیا تھا تو کفارے کی ضرورت نے پیدا ہوتے ہی دم توڑ دیا۔ اب ’’بدترین جمہوریت‘‘ آزاد تھی، احتساب ٹھکانے، بلکہ (ن) لیگ کا اٹھارہویں ترمیم کے وقت احتساب بیورو ختم کر دینے کی تجویز کو نہ ماننے کا پچھتاوا بھی اس کی پی پی جانب روا داری اور پی پی کی فرینڈلی اپوزیشن کی طرح واضح تھا۔ شاخسانہ، ملک بدترین مقروض، آئینی انتظامیہ کی تباہی اور اس کی جگہ کمزور ہوتے محکمہ جات اور وزارتوں کے متوازی طاقتور کمپنیاں اور من مانے بےنتیجہ ڈویلپمنٹ پروجیکٹس جو خیبر پختونخوا کی شفاف ہوتی حکومت میں بھی سرایت کرکے اسے آلودہ کرگئے، اور آج اس کا احتساب کرنا بھی موجودہ خان حکومت کے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔

اس سارے پس منظر میں تبدیلی حکومت کی گورننس میں شفافیت لانے میں بری طرح ناکامی کے بعد بھی یہ خبر خوش کن اور امید کی کرن ہے کہ وزیراعظم عمران خان گورننس میں شفافیت لانے کے لئے پُرعزم ہیں۔ اس کے لئے ان کی نیک نیتی، بیڈ گورننس کی نشاندہی پر ساتھیوں کے ملوث ہونے کی کتنی مرتبہ بےنقابی کے بعد بہت معتمد ساتھیوں کے خلاف تھی کچھ نہ کچھ کارروائی کرنے کی شفاف روایت قائم کرنے سے ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ یہ صورت گورننس میں شفافیت کی موجود محال تلاش کو بالآخر آسان بنا ہی دے گی، جو اصل میں آج کے جدید دور میں کوئی ایشو نہیں لیکن وزیراعظم کو نہ گورننس کا تجربہ ہے اور گڈگورننس قائم ہونے سے متعلق ان کا علم اور ویژن بھی مایوس کن ہے۔ متبادل راہ کے لئے ان کا درباری حصار بڑی رکاوٹ ہے۔ پھر ان کا مہلک اعتماد کہ ’’میں ہی ٹھیک ہوں‘‘ جو انہیں کرکٹ کے تجربے اور کامیابی نے دیا لیکن یہ محدود اور غیرمتعلقہ تجربہ وزیراعظم بننے پر اُن کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ بہت سیدھا سادا حل ہے کہ انتظامی علوم کی سائنس میں گڈگورننس کے آٹھ اجزائے ترکیبی ہیں جن میں شفافیت فقط ایک ہے۔ Participatory Approach ایک اور دوسرا مطلوب عنصر ہے، جس سے وزیراعظم بالکل محروم ہیں۔گورننس کی اوور ہالنگ نہیں ہوگی۔ اسے ختم کرکے آٹھووں اجزائے ترکیبی کو عملاً اختیار کرنا ہوگا۔ ای گورننس اس کی بڑی اور جدید ضرورت ہے، جس سے روایتی کرپٹ اور اسٹیٹس کو کی بڑ ی بینی فشری بیوروکریسی کی جان جاتی ہے۔ وزیراعظم کی موجود گورننس نے تو ’’نیب‘‘ کو بھی اسٹیٹس کو کا ٹول بنا کر اس کا کرنٹ ختم کردیا۔ باقی۔ عقلمنداں را اشارہ کافی است۔ بشرطیکہ گورننس کے موجود سیٹ اپ میں کوئی عاقل اور بالغ ہو۔

تازہ ترین