• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کمیشن ایک ایسی نئی نویلی دلہن ہے جس کی سوتیلی ماں نے اسے ساری عمر دبا کر رکھا اور اس کو امور خانہ داری سے روشناس نہ ہونے دیا۔ سسرال میں آتے ہی اسے عاقل بزرگوں (عدلیہ) نے کہا کہ گھر بہو کی مستعد نگرانی کے بغیر چل نہیں سکتا اس لئے اسے یہ ذمہ داری نبھانا پڑے گی۔ دلہن شش و پنج اور سخت ابہام کا شکار ہے کیونکہ اسے اتنے بڑے خاندان کے معاملات سمجھنے اور ان کو راہ راست پر چلانے کی تربیت ہی نہیں دی گئی۔ عاقل بزرگ اور گھر کے دوسرے افراد اس کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں لیکن گھر کے اکا دکا افراد سمجھتے ہیں کہ اسے کچھ تربیت دینے کی ضرورت ہے اور کچھ وقت بھی۔
الیکشن کمیشن کی کارکردگی کے بارے میں اکثریت مایوس ہو چکی ہے اور سمجھتی ہے کہ معاملات میں کسی طرح کا کوئی سدھار نہیں آیا بلکہ ہزاروں ریٹرننگ افسروں نے الیکشن امیدواروں سے جس طرح کے غیر متعلقہ، ذاتی اور مضحکہ خیز سوالات پوچھے اس سے کمیشن ایک مذاق دکھائی دینے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریٹرننگ افسروں نے الیکشن کمیشن کی شہرت کو بہت داغدار کیا ہے لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ پہلی مرتبہ سیاسی ایلیٹ کو درمیانے طبقے کے افسروں کے سامنے جواب دہی کرنا پڑی۔ اس سے کم از کم سیاسی حلقوں میں یہ احساس ضرور پیدا ہوا ہوگا کہ وہ اپنے ہر عمل کے جواب دہ ہیں۔جس انداز اور جتنے کم عرصے میں نابالغ الیکشن کمیشن پر اتنی بڑی ذمہ داریاں ڈالی گئیں ان میں غلطیوں کے ارتکاب کے امکانات بہت زیادہ تھے۔ جب ہزاروں ریٹرننگ افسروں کو بلا تربیت چھانٹی کا عمل سپرد کیا جائے گا تو اس میں ہر طرح کے عناصر ہوں گے۔ ان میں وہ بھی ہوں گے جو دوسری شادی کو بنیادی طور پر غلط مانتے ہیں بلکہ ہم تو کہیں گے کہ ان میں وہ بھی ہوں گے جن کا ایمان ہوگا کہ جس کی مونچھ نہیں ہے اس کی روح ہی نہیں ہے اور وہ قوم کی رہنمائی کرنے کا اہل نہیں ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ قانون ساز اداروں سے لے کر عدلیہ تک کسی نے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی بنیادی حدود کا تعین نہیں کیا ہوا تھا اس لئے اس پر ابہام مضحکہ خیز نتائج پر منتج ہوا۔ پورے انتخابی عمل میں بنیادی نقص یہ ہے کہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اتنا کچھ کرنا ناممکن ہے جس کی الیکشن کمیشن سے توقع کی جا رہی ہے۔ وقت کی قلت سیاسی پارٹیوں کو بھی امیدواروں کے انتخاب کا مناسب موقع فراہم نہیں کرتی۔ اس لئے ضروری ہے کہ قانون ساز ادارے اور عدلیہ سیاسی عمل کے ہر پہلو اور ہر مرحلے کو لمبے عرصے کیلئے طے کر دینا چاہئے۔ سیاسی پارٹیوں کے اندرونی الیکشنوں سے لے کر امیدواروں کی نامزدگی کا عمل بہت پہلے سے شروع ہو جانا چاہئے تاکہ ووٹروں اور میڈیا کو ان کی جانچ پڑتال کا مناسب موقع مل سکے۔
ویسے تو کسی بھی بالغ جمہوریت کے اصولوں کو اپنایا جا سکتا ہے لیکن اگر امریکہ کا پرائمری الیکشنوں کی طرح ڈالی جاتی ہے تو بھی اس سے معاملہ کافی ہموار ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں پارٹی الیکشن بہت پہلے ہو جاتے ہیں اور الیکشن کے چند ماہ پیشتر پارٹیاں اپنے پرائمری الیکشن منعقد کرتی ہیں۔ اس میں پارٹی کے ممبران امیدوار نامزد کرتے ہیں۔ چنانچہ ہر پارٹی ممبر کو اپنے ہونے والے نمائندے کی نامزدگی کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ الیکشن میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ باقی ہے اور ابھی تک امیدواروں کی فائنل لسٹ سامنے نہیں آئی اور جن پارٹیوں نے امیدواروں کی نامزدگی کی بھی ہے تو اس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ یہ احتجاج دراصل امیدواروں کی نامزدگی کے طریقہ کار کے بارے میں ہے جس کے تحت پارٹیوں کی لیڈران بورڈ بنا کر پارٹی ممبران کی رضامندی کے بغیر بھی امیدوار نامزد کر دیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اس بارے میں نئے اصول و ضوابط ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو پارٹیوں کے الیکشنوں کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے بارے میں دانشور طبقے کے بہت سے تحفظات باجواز ہیں لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ انہوں نے درون پارٹی الیکشنوں کا شفاف اور اعلیٰ معیار قائم کیا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ درست ہے کہ اس عمل میں بہت معمولی حیثیت کے شہریوں کو بھی لیڈرشپ کا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ دوسری پارٹیوں کو اس کی تقلید کرنا چاہئے اور الیکشن کمیشن کو اس بارے میں بہت بڑی ذمہ داری نبھانا چاہئے۔
پارٹی الیکشنوں کے بعد دوسرا مرحلہ امیدواروں کی نامزدگی کیلئے پرائمری الیکشن کرانے کا ہے۔ الیکشن کمیشن کو بڑی پارٹیوں کو شیڈول دینا چاہئے کہ وہ کن کن تاریخوں پر یہ الیکشن منعقد کر سکتی ہیں۔ اس مرحلے پر پارٹی کے اندر امیدوار بننے کے خواستگار اپنے ممبران میں مہم چلائیں گے۔ چونکہ ہر حلقے کے امیدوار ایک دوسرے کے برے بھلے سے خوب واقف ہوتے ہیں اس لئے بہت سے امیدواروں کی اسی مرحلے پر چھانٹی ہو جائے گی۔ اس کا دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ صرف چند بڑے سیاستدان ہی امیدوار نامزد نہ کریں بلکہ اس میں ممبروں اور پارٹی کارکنوں کی بھرپور شمولیت ہو۔ اس مرحلے پر بھی الیکشن کمیشن کو اصول و ضوابط متعارف کرانا چاہئیں۔
امیدواروں کی اہلیت کی اسکروٹنی یا شفافیت کی جانچ پڑتال بھی اہم مرحلہ ہے۔ اس میں ملک کے باقی تمام اداروں کی مدد سے ہی یہ کام سرانجام دیا سکتا ہے۔ حالیہ الیکشن میں مالی و دیگر اداروں نے الیکشن کمیشن کی کافی مدد بھی کی ہے۔ اگر پارٹیوں کی جانب سے پرائمری الیکشن کے ذریعے امیدوار کافی عرصہ پہلے نامزد ہو جائیں تو الیکشن کمیشن اور میڈیا کا چھانٹی کا کام بہت آسان ہو سکتا ہے۔
اگرچہ اب تک کی الیکشن کمیشن کی کارکردگی کوئی خاص قابل ستائش نہیں ہے لیکن یہ ارتقائی عمل کا آغاز ہے۔ پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن کو آزاد اور بااختیار بنایا گیا ہے۔ ابھی الیکشن کمیشن کی حالت اس بہو کی ہے جس کو تربیت دیئے بغیر ہی تمام کام بہت تھوڑے عرصے میں سرانجام دینے کی ذمہ داری دے دی گئی ہے۔ اگر الیکشن کمیشن اگلے پانچ سالوں تک اپنی اور ریٹرننگ افسروں کی باقاعدہ تربیت کرے تو یہ واقعی آزاد اور خودمختار ادارہ بن جائے گا اور اگر ایسا ہو گیا تو پھر نگران حکومتیں بنانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوگی جیسا کہ ہندوستان میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ الغرض الیکشن کمیشن سے مایوسی بلاجواز ہے اور اس کو ارتقائی ترقی کی پہلی منزل سمجھنا چاہئے جس کے سیاق و سباق میں الیکشن کمیشن مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔
تازہ ترین