• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اتوار کی سہ پہر اسلام آباد کےعلاوہ پنجاب ، خیبرپختونخوا آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں آنے والے شدید زلزلے سے، جس کی ریکٹر سکیل پر شدت 7.1ریکارڈ کی گئی۔ اگرچہ زیادہ جانی و مالی نقصان نہیں ہوا، پھر بھی درجنوں مکانات کی چھتیں، دیواریں اور پہاڑی علاقوں میں مٹی کے تودے گرنے سے 9افراد جاں بحق، متعدد زخمی اور سیکڑوں مویشی ہلاک ہوگئے، مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچا، شاہراہ قراقرم بند ہوگئی اور کئی علاقوں کے درمیان پل اور سڑکیں ٹوٹنے سے ان کا باہمی رابطہ منقطع ہوگیا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے متنبہ کیا ہے کہ ممکنہ آفٹرشاکس سے بچنے کیلئے شہری محتاط رہیں اور صوبائی حکومتیں متوقع صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی تیار کرلیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے تمام حکومتی اداروں کو متاثرین کی مدد کرنے کی ہدایت کی ہے۔ زلزلہ کا مرکز شمال مشرقی افغانستان میں ہندوکش رینج تھا اور اس کی زیرزمین گہرائی 236 کلومیٹر تھی۔ اس رینج سے ہرسال دوتین زلزلے ضرور آتے ہیں لیکن گہرائی زیادہ ہونے سے نقصان کم ہوتو بھی عمارتوں اور دوسرے انفراسٹرکچر کو کمزور کردیتے ہیں جس سے مستقبل میں آنے والے زلزلے زیادہ تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ عرصہ سے لگاتار زلزلے آرہے ہیں۔ ماہرین ارضیات کے مطابق پاکستان ہندوکش اور کوہ سلیمان رینج میں زلزلوں کے فعال ترین زون میں واقع ہے اور جنوبی ایشیا اور یوریشیا پلیٹس میں تصادم کے نتیجے میں شمال مغربی پاکستان اور اس سے ملحقہ افغان اور بھارتی علاقے زلزلوں کی زد میں رہتے ہیں۔ 8اکتوبر 2005میں آزادکشمیر اسلام آباد اور خیبرپختونخوا میں 7.6کی شدت سے جو زلزلہ آیا تھا اس میں 73ہزار افراد جاں بحق اور 35لاکھ بے گھر ہوگئے تھے۔ ان کی بحالی کا کام گیارہ سال بعد بھی مکمل نہیں ہوا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تمام بڑے اور گنجان آباد شہر زلزلے کی اس فالٹ پر واقع ہیں جو مارگلہ ہلز کے وسط سے گزرتی ہے۔ اگر حفاظتی اقدامات نہ کئے گئے اور پاکستان فالٹ لائن کی جس لاٹھی پر کھڑا ہے خدانخواستہ وہ لڑکھڑا گئی تو ناقابل تصور نقصان ہوسکتا ہے لیکن ملک میں آج تک برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے اس جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ زلزلہ ایک ایسی بلائے ناگہانی ہےجس کی قبل ازوقت پیش گوئی نہیں کی جا سکتی اسلئے اس کی تباہ کاریوں سے بچنے کا واحد طریقہ موثر حفاظتی انتظامات ہیں۔ ایسے انتظامات دنیا بھر میں کئے جاتے ہیں ۔ جن ملکوں میں زیادہ زلزلے آتے ہیں انہوں نے ان سے نمٹنے کے طریقے بھی تلاش کررکھے ہیں اور ان پر سختی سے عمل بھی ہوتا ہے ۔ان میں پہلا اور سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ لوگ جن گھروں میں رہتے وہ زلزلے سے بچائو کے تقاضوں کے مطابق تعمیر کئے گئے ہوں۔ ان کا ڈیزائن درست اور زلزلہ پروف ہو، یہی احتیاط دوسری عمارات کے بارے میں اختیار کرنا بھی لازمی ہے ۔ پاکستان میںرہائشی اور دوسرے مقاصد کیلئے تعمیر ہونے والی عمارات میں حفاظتی انتظامات کا افسوسناک حد تک فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچانک زلزلہ آجائے تو لوگ کلمہ طیبہ اور دعائوں کا ورد کرتے ہوئے گھروں، دفاتر یا مارکیٹوں سے باہر نکلنے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ عورتیں اور بچے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کلمہ پاک اور دعائوں کے صدقے اللہ پاک رحم فرماتا ہے اور نقصان زیادہ نہیں ہوتا تاہم حکومت کو چاہئے کہ وہ زلزلوں سے حفاظت کے بین الاقوامی طور طریقے اپنائے اور زیادہ زلزلوں والے ملکوں مثلاً جاپان ایران اور ترکی وغیرہ کے ماہرین کی مشاورت سے تعمیراتی نظام کو بہتر بنائے۔ ایسا بلڈنگ کوڈ متعارف کرائے جس میں دوسری باتوں کے علاوہ زلزلے سے بچائو کی موثرتدابیر موجود ہوں اور اس کوڈ پر سختی سے عمل کرائے۔ اس کے علاوہ زلزلے کی صورت میں فوری اور موثر امدادی کارروائیوں کیلئے پیشگی حکمت عملی تیار رکھے۔ پاکستان میں جس تواتر سے زلزلے آرہے ہیں ان کے پیش نظر شہریوں کو خود بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ زلزلے جیسی آفات ارضی و سماوی سے حکومت اور شہری مل کر ہی نمٹ سکتے ہیں۔
تازہ ترین