• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور ایران تاریخی، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں بندھی ہمسایہ ریاستیں ہیں۔ 1947ءمیں وطن عزیز ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا تو اس نئی نویلی ریاست کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ایران تھا۔ پاکستان کے دورے پر آنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ بھی شہنشاہ ایران تھے اور یہ دورہ مارچ 1950ءمیں ہوا تھا۔ ایران کے لئے پہلے پاکستانی سفیر راجہ غضنفر علی خان کو روانہ کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا کہ ’’تم ایک ایسے ملک میں جا رہے ہو جس کے ساتھ ہمارے تعلقات دنیا بھر میں سب سے زیادہ دوستانہ ہیں۔ روایتی طور پر دونوں ملکوں کا جھکائو مغرب کی طرف تھا۔ 1955ءمیں بغداد پیکٹ بنا تو پاکستان اورایران اس میں شامل تھے۔ یہی بغداد پیکٹ بعد میں سینٹو کے نام سے موسوم ہوا اور دونوں ممالک بدستور اس کا حصّہ رہے پھر 1964ءمیں دونوں نے ترکی کے ساتھ مل کر آرسی ڈی تشکیل دی جو بعد میں ای سی او کا پیش خیمہ بنی اور پاکستان اور ایران اس میں بھی شامل ہیں۔ 1965ءکی جنگ میں پاکستان کیلئے ایران کی سپورٹ افسانوی رنگ لئے ہوئے ہے۔ تہران نے بھرپور کوشش کی کہ دوران جنگ پاکستان میں تیل کی قلّت نہ ہونے پائے۔ جس تزویری گہرائی کا تذکرہ عام طور پر افغانستان کے حوالے سے ہوتا ہے ایران نے پاکستان ایئرفورس کو وہ تزویری گہرائی اس شکل میں بہم پہنچائی کہ اس کے طیاروں کو ایران کے اندر محفوظ ٹھکانے مہیا کئے اور ان کیلئے اپنے ایئربیس کھول دیئے۔ اس مثالی دوستی میں دراڑ اس وقت آئی جب اسلامی انقلاب کے بعد ایران، ا مریکہ اور اس کے حواریوں کے غلبے سے نکل گیا اور پاکستان بدستور اسی کیمپ میں شامل رہا۔ پاکستان کی امریکہ دوستی اور ایران کی امریکہ دشمنی باہم متضاد اور متصادم صورتحال تھی جس نے صدیوں سے تاریخی، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں بندھے دونوں ملکوں کے مابین فاصلے بڑھا دیئے اور یوں جو خلا پیدا ہوا اسے پر کرنے کیلئے بھارت پیش پیش تھا۔ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔ خطّے میں بے پناہ تبدیلیاں آ چکیں۔ ساٹھ اور ستّر کی دہائیاں قصّہ پارینہ بن کر رہ گئیں۔ بدلے ہوئے حالات میں فارن پالیسی کی تشکیل نو ہمارے لئے ہی نہیں خطّے کی سب ہی ریاستوں کیلئے ایک چیلنج ہے۔ہمسائے افراد کے ہوں یا ریاستوں کے، بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ ایک تو ان کا مستقل کا ساتھ ہوتا ہے اور دوسرے وہ آپ کی زندگی کو جنّت بھی بنا سکتے ہیں اور جہنم بھی۔ اسی لئے تو دانا لوگ ہمسایوں کے ساتھ بنا کر رکھتے ہیں، کوشش ہماری بھی حتیٰ الامکان یہی ہے۔ دوطرفہ تعلقات کو بڑھاوا دینے کیلئے سفارتی کاوشوں کے علاوہ دونوں جانب سے اعلیٰ سطحی روابط بھی ہوتے رہتے ہیں۔ چند ہفتے پیش تر ایرانی صدر حسن روحانی پاکستان کے دورہ پر تشریف لائے تھے جسے سرکاری اور سفارتی حلقوں نے غیرمعمولی اہمیت کا حامل قرار دیا تھا۔
مہمان صدر کی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں۔ موصوف کے ہمراہ آنے والے ساٹھ رکنی وفد نے متعلقہ پاکستانی اہلکاروں کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کی رفتار تیز کرنے کا جائزہ لیا اور بعض تجاویز بھی سامنے آئیں۔ خطّہ میں دہشت گردی کے خاتمہ کے عزم کا اظہار کیا گیا اور چھ عدد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔ اس سے قبل مئی 2014ءمیں وزیراعظم نواز شریف بھی ایران کے دورہ پر تشریف لے گئے تھے اور اس قسم کی مفاہمتی باتیں اس وقت بھی ہوئی تھیں۔ یہ سب اپنی جگہ، مگر دنیا بھر میںبین الریاستی تعلقات کو جانچنے کا ایک ہی پیمانہ ہے کہ باہمی تجارت کتنی ہے؟ بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ پاک، ایران تجارت کا سالانہ حجم محض 25کروڑ ڈالر ہے جبکہ بھارت کے ساتھ ایران کا اربوں ڈالر کا لین دین ہوتا ہے۔
را کے انڈر کور انٹیلی جنس آفیسر کمانڈر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، اعترافی بیان اور مابعد تفصیلات نے پاک، ایران تعلقات کے منظرنامے کو مزید دھندلا دیا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان برادر ہمسایہ ملک ایران سے تعاون کا خواست گار ہوا ہے۔ فارن آفس کی طرف سے ایرانی سفیر کو لکھے گئے خط میں پاکستان نے چھ امور پر تعاون مانگا ہے۔ اوّل ایرانی حکومت را ایجنٹ کل بھوشن یادیو کے ساتھی راکیش عرف رضوان کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کرے۔ دوم کل بھوشن یادیو کی ایران میں سرگرمیوں کے متعلق تصدیق کی جائے۔ سوم ایران کے مختلف شہروں میں کلبھوشن یادیو کے قیام کے عرصے کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ چہارم کلبھوشن یادیو کے کاروبار اور جن لوگوں سے وہ رابطے میں رہا، ان کے بارے میں بتایا جائے۔ پنجم ایرانی سرزمین پر را کے نیٹ ورک سے آگاہ کیا جائے اور ششم اس معاملے سے متعلق دستیاب معلومات سے آگاہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے ہمیشہ ایران میں ہونیوالی دہشت گردی کی نہ صرف مذمت کی ہے، بلکہ ایران کے ساتھ تعاون بھی کیا ہے جسکا اعتراف متعلقہ ایرانی حکام کرتے آئے ہیں۔ اس قسم کے تعاون کی سب سے بڑی مثال ریگی برادران کی گرفتاری ہے جو ایران میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوّث تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران کیساتھ کراس بارڈر مسائل کے حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ تحمّل و بردباری کا مظاہرہ کیا ہے۔ تہران تواتر سے الزام لگاتا آیا ہے کہ پاکستانی علاقے سے ایران کے اندر دہشت گردی ہوتی ہے اور ملزمان کارروائی کے بعد پاکستانی علاقے میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ فروری 2014ءمیں ایران کے پانچ سیکورٹی گارڈز کے اغوا کا الزام بھی پاکستان پر لگایا گیا تھا حالانکہ وہ کبھی بھی ہماری سرزمین پر نہیں رہے تھے۔ 16؍مئی 2014ءکو ایرانی بارڈر فورس نے ہماری سرحد کے اندر ضلع پنجگور کے نکور نامی گائوں پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے ایک شخص کو ہلاک اور دوسرے کو شدید زخمی کر دیا تھا اور ہماری رواداری کا یہ عالم کہ اس سانحے پر احتجاج بھی نہیں کر پائے تھے۔ رواداری اچھی چیز ہے اور سفارت کاری کا حسن خیال کی جاتی ہے مگر دوسروں کو کمفرٹیبل کرنے میں ہم کچھ زیادہ ہی آگے چلے جاتے ہیں اور ہمارا رویّہ معذرت خواہانہ ہو جاتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک ٹھنڈے دل و دماغ سے درپیش مسائل کا جائزہ لیں، آنکھیں چرانے سے کام نہیں چلے گا۔ بھارتی جاسوس کمانڈر کل بھوشن یادیو کا اعترافی بیان اپنے اندر جہاں معنی لئے ہوئے ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ را کا انڈر کور آفیسر ہے اور 2003ءسے ایران کے سرحدی شہر چا بہار میں کاروبار کرتا رہا ہے اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی ملوّث رہا۔ یہ ایک پیچیدہ اور افسوسناک صورتحال ہے جسے اسلام آباد اور تہران کو حد درجہ بردباری اور دانشمندی کیساتھ سنبھالنا ہو گا۔ شدّت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے تاکہ بارڈر کو دونوں جانب سے محفوظ بنایا جا سکے۔ بلاشبہ یہ دونوں ملکوں کی قیادت اور سفارتکاری کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے جسکے سلجھائو کیساتھ خطّے کا مستقبل جڑا ہوا ہے۔ فریقین کے مابین موجود غلط فہمیاں اور مسائل دور نہ ہوئے تو خطّہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیگا۔ نہ صرف یہ کہ امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا، بلکہ چین پاکستان اکنامک کاریڈور اور گیس پائپ لائن جیسے منصوبے بھی ادھورے رہ جائینگے۔
تازہ ترین