• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں سب سے پہلے سوشل میڈیا اور موبائل ٹیلیفون پر موصول ہونیوالے طنزیہ و معترف پیغامات کا حوالہ دینا چاہوں گا،دوست احباب نے بڑی تعداد میں مارچ کے وسط میں لکھے گئے کالم بعنوان ۔احتساب آپ سے شروع …!، کے بارے میں مجھے مشکوک انداز میں کریدا ہےکہ کیا وزیراعظم کے احتساب سے متعلق آپ کے پاس پہلے سے ہی خبر موجود تھی ؟ ہرگز نہیں،یہ حسن اتفاق تھا حسن اہتمام نہیں،میں نے محض سنگاپور کے پہلے وزیراعظم کے ان کے پولیس چیف کے ساتھ مکالمے کا حوالہ دیاتھا جیسے آج کےکالم کے آخر میں بھی ایک واقعہ کا ذکر کروں گا،ویسے بتاتاچلوں کہ اگرکسی صحافی کے پاس اس طرح کی حساس خبر ہوبھی تووہ اسی طورہی بتائے گا،ورنہ پانامالیکس جیساہنگامہ برپاہوتاہے،ہرطرف آف شور کا شور برپا ہے،الزامات کی بارش ہےکہ تھمنے کی بجائے برستی ہی جارہی ہے،آئس لینڈ کے جمہوری وزیراعظم دو دن بھی جذبات سے بپھرےعوام کے سامنے نہیں ٹھہر سکے، اٹلی کے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے سربراہ ادارے چھوڑ چکے ہیں، آسٹریلیا اور دیگرکئی بڑے یورپی ممالک میں چھان بین شروع ہوگئی ہے،برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈکیمرون آدھاقصور تسلیم کرچکے اوراب چندلاکھ پونڈز ٹیکس چوری کے الزام کاسامنا اور اپوزیشن کے عتاب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں،وطن عزیز میں بھی الزامات کا ایک طوفان برپا ہے لیکن اس کی سمت محض وزیراعظم اور اس کے خاندان کی جانب ہے،لیکس کےباقی ماندہ ڈھائی سو بااثر افراد کا ذکر کیا جارہاہےنہ طاقتور وبااختیار اداروں کے کانوں پر ابھی تک جوں رینگی ہے،وہ صاحب جو تین سال پہلے شیروانی اور واسکٹ سلوا چکے تھے،ایک دھرنے کی ناکامی کے بعد پھرمیدان میں نکل چکے ہیں اور نئی بات یہ ہے کہ انہی میں سے ایک کالی واسکٹ پہن کر قوم سے خطاب کرنے کی دیرینہ خواہش بھی پوری کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں،اب لیکس کو سنہری موقع سمجھ کرحکمرانوں کوبےگھرکرنےکیلئے بےچین ہیں،پانامالیکس کی ایک کروڑ سے زائد دستاویزات میں سے صرف چند سوصفحات نے پاکستان سمیت پوری دنیا کے اس حکمراں طبقے،جنہوں نے خزانوں کوعوام سے چھپاکر آف شور یعنی سمندرپار چھپایا، کو مشکل میں ڈال دیاہے،ان رپورٹس میں کئے گئے انکشافات کی تعداد اور شدت کے حوالے سے یقینا لیک کا لفظ چھوٹا محسوس ہوتاہے، ان لیکس کے محرک چار سو تحقیقاتی رپورٹروں کی ایک سال سے زائد کی شبانہ روز محنت سےبظاہرحقیقت پر مبنی ہولناک تصویر کے رنگ مزید گہرے اور سیاہ ہوتے جارہے ہیں،خراج دینا پڑے گا کہ یہ منظم صحافیانہ کارروائی یقیناً انیس چوہتر کے واٹرگیٹ اسکینڈل کو بے نقاب کرنے سے بڑی پیشہ وارانہ کاوش ثابت ہوگی۔
لیکن دوسری طرف عوام کے جذبات کی پامالی حدوں کو چھو رہی ہے،کئی اہم رہ نما اس کو شیطانی لیکس ، را کی سازش اور وزراء ومشیر تو اس کوحکومت دشمنوں کی سازش کاشاخسانہ قرار دے رہے ہیں، دلچسپ امر یہ ہےکہ ان میں سےبعض وزیر تو وزیراعظم اور ان کے خاندان کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے زمین آسمان ایک کررہے ہیں جبکہ وزیراعظم کے قریبی رشتہ دار وزیر سمیت ایک بااثر وزیر ان کےدفاع کی بجائے اس معاملے پرکھل کر سامنے ہی نہیں آرہے، اس سوال کا جواب آئندہ چند روز میں شاید مل ہی جائےگا، وزیراعظم خود ان خوفناک انکشافات کے اگلے روز ہی اپنے ذاتی معاملات کی صفائی دینے سرکاری ٹی وی سے عوام سے مخاطب کرنےپرمجبور ہوئے اور بے قصور ہونے کی دہائی بھی دی لیکن خاص توکجا عام بھی مطمئن ہونے کو تیار نہیں،سوال پیدا ہوتاہے کیوں؟ جمہوریت کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئےاور انہیں جوابدہی کے عمل کا پابند ہونا چاہئے،ہر وہ عمل جو ملک و قوم کے مفاد میں نہ ہو ،آئین کے مطابق اس پرجزا وسزا کا واضح طریقہ کار موجود ہے اور تشریح اعلیٰ عدلیہ کا کام اورالزام ثابت ہونے تک کسی بھی ملزم کومعصوم ہی گردانا جائےگا ،لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ کڑے معیار اور ٹھوس بنیادوں پر الزامات کی تحقیقات نہ کی جائیں ، پانامالیکس کے معاملے نے صورت حال کوبری طرح الجھا دیاہے،ابھی تک کسی بھی سطح پر بھرپور اور جامع تحقیقات کا آغاز نہیں ہوسکا، کہاجارہاہےکہ بے چاری جمہوریت بہت کمزور ہے اور اس کی زندگی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں! اتفاق دیکھئےایوانوں میں بیٹھے منتخب نمائندے اپنی اپنی مرضی کی تحقیقات چاہتے ہیں،اپوزیشن مکمل طور پرتقسیم ہوچکی ہے،کوئی عالمی سطح کے فارنزک آڈٹ چاہتاہے تو کوئی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے تحقیقات کامطالبہ کررہاہے،کوئی نیب ،ایف آئی اے اور دیگراداروں کو شامل تفتیش کرنا چاہتا ہے تو کوئی وزیراعظم سے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کر رہاہے،یہاں تک کہ خادم اعلیٰ کی (ایک)اہلیہ کہتی ہیں کہ آف شورکمپنی بنانے والوں نےغیرقانونی نہ سہی غیراخلاقی حرکت تو کی ہے…! بس ووٹ دینے والے جمہوریت کے خالق عوام جمہوری کرداروں اور اخلاقی اقدار کا تماشا دیکھ رہے ہیں،دو سال پہلے امریکہ میں قیام کے دوران ایک انٹرنیشنل چینل پر خبر سنی کہ ہمارے ساتھ ہی آزاد ہونیوالے ایک ترقی یافتہ ملک میں ایک وزیر نے خود کشی کرلی، بطور رپورٹر معاملے کی کھوج لگائی تو دماغ سن ہوگیا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں،وزیرصاحب پر الزام لگاکہ وہ سرکاری گاڑی میں بازار سے گزرتے وقت محض ذاتی شاپنگ کرنے جیسے سنگین جرم کے مرتکب ہوئے،محکمانہ انکوائری شروع ہوئی ،وزیر کے پاس اپنے کیس کے دفاع میں کوئی ٹھوس قانونی دلائل اوراخلاقی جواز نہ تھا،ابھی معاملہ آگے بڑھ ہی رہاتھاکہ انہوں نے اپنوں وغیروں کی ہزیمت کی بجائے موت کو گلےلگالیا، یہ محض اخلاقیات کی عملی مثال ہوسکتاہے؟ لیکن یہ اخلاقیات کس بلاکا نام ہےیہ تو ہمارے ہاں بالخصوص سیاست میں تو کسی کو معلوم نہیں،ہاں کم ازکم عوام کی تسلی وتشفی اور اپنی ساکھ بچانےکے لئے یہ تو کیا جاسکتاہے کہ اس نازک صورت حال کو ایک بہترین موقع میں بدل دیاجائے،استعفوں کےمطالبے کی بجائے حکمران اور اپوزیشن جماعتیں ایک ہوکر ٹیکس اصلاحات اورسب پریکساں نفاذ کےلئےقانونی وآئینی قدم اٹھائیں،ملکی وغیرملکی اثاثوں کی سرعام تشہیر صرف سیاستدانوں کی بجائےوکلاء،فوجی افسران،صحافیوں ،ہرقسم کے کاروباری افراد اور بیوروکریٹس کے لئے لازمی قرار دی جائے، سب کو ایک مرتبہ اپنے بیرون ملک اثاثوں کو اپنے ملک میں واپس لانے کا موقع دے دیاجائے، ٹیکس چوری اور دھوکہ دہی کے مرتکب افراد کو قومی مجرم قرار دے دیاجائے۔ دن میں خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن نیت صاف ہو تو یہ سب کچھ آئندہ چند ماہ تو کیا چند روزمیں ممکن ہے،یہاں گفت گوختم کرنے سے پہلےاندر کی خبربھی بتاتاچلوں کہ موجودہ حکومت کو بے تخت وپا کرنے کے خواب دیکھنے والے جن سے آس لگائے بیٹھے ہیں وہ ان کی غلط فہمی ہے،تاہم یہ خدشہ ضرور ہےکہ حکمرانوں کے رازدان اور بظاہر قریبی دوست رخصتی میں مددگار اور موجودہ مشکل سے نجات کا ذریعہ نہ بن جائیں ، وزیراعظم صاحب وقت ابھی نہیں گزرا کچھ کرگزریں ،کہیں دیر نہ ہوجائے ورنہ محروم و محکوم عوام معروف مرحومہ شاعرہ پروین شاکرکےاس شعر سے تو بخوبی آشناہیں ہی۔
میں سچ کہوں گی پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے …!
تازہ ترین