• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دماغ عرش پر جا پہنچیں تو پھر فرش سے ناتا کٹ جاتا ہے پھر زمین دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی زمینی حقائق تک رسائی ہو پاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس وقت اسی کیفیت سے دوچار ہے، وہ مقبولیت کے نشے سے سرشار ہے مگر اس ”مقبولیت“کے حقیقی تجزےئے سے بالکل بے نیاز ہے۔حقیقی تجزیئے اور تبصرے کیلئے حقیقت پسند ہونا پڑتا ہے مگر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور اُن کے بھائی اس گھڑی کسی اور ہی دھن میں مگن ہیں وہ خیالی دنیا میں سجے سجائے آسمانی تخت پر جلوہ افروز ہیں اور زمینی حقائق سے اُن کا رابطہ کٹ چکا ہے۔گزشتہ چند ہفتوں سے جماعت اسلامی کے ساتھ دیگر جماعتوں کے اتحادوں کی بنتی بگڑتی اندورنی کہانی ان کہانیوں سے بہت مختلف ہے جو بالعموم جماعت اور پی ٹی آئی اور ان کے مشترکہ خیر خواہوں کے درمیان گردش کر رہی ہیں ۔ایک کہانی کہ جو فیس بک اور برقی پیغامات کے ذریعے جدہ سے ٹورنٹو اور ٹورنٹو سے نیویارک اور واشنگٹن تک گردش کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا اتحاد ہونے کو تھا مگر اتحادکی بیل جماعت کے لاہوری گروپ نے منڈھے نہ چڑھنے دی۔ لاہور ی گروپ کے خیالی سربراہ لیاقت بلوچ اور نائب ڈاکٹر فرید پراچہ ہیں۔ ہم نے اس تاثر کے بارے میں جب بلوچ صاحب سے پوچھا تو پہلے تو وہ بہت مسکرائے اور پھر انہوں نے کہا کہ ایسے تاثرات یا الزامات وہ لوگ لگاتے ہیں جو جماعت کے نظام سے آگاہ نہیں، یہاں ہر کسی کو اپنی بات کھل کر کرنے کا موقع ملتا ہے پھر جب شوریٰ کثر ت رائے سے کوئی فیصلہ کر لیتی ہے تو اس فیصلے کو سب دل وجان سے قبول کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت میں کسی لاہوری یا پشاوری گروپ کا کوئی وجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ شوریٰ کے فیصلے کی روشنی میں ہی امیرجماعت اسلامی نے عمران خان سے رابطہ کیا ، اس رابطے کو عمران خان نے خوش آمدید کہا۔ہم نے انگریزی محاورے کے مطابق جب پی ٹی آئی کے ایک گھوڑے کے منہ سے خود سنا تو معلوم ہوا کہ عمران خان متقی وپرہیز گار امیر جماعت سید منور حسن کی تہہ دل سے عزّت کرتے ہیں وہ جماعت اسلامی کو صادق وامین لوگوں کی جماعت سمجھتے ہیں ۔عمران خان نے فوری طور پر اتحاد کی منزل کے حصول کیلئے ایک کمیٹی بھی بنا دی جس کے سربراہ جاوید ہاشمی تھے مگر جاوید ہاشمی یا اُن کی کمیٹی کے کسی دوسرے رکن نے جماعت اسلامی سے ہفتوں رابطہ تک نہیں کیا۔ ایسے حالات میں پیغام بڑا واضح تھا کہ عمران تو جماعت کے ساتھ اتحاد چاہتے ہیں مگر اُن کی جماعت کا سیکولر اور ”جماعتی گروپ “دونوں ہی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں چاہتے ۔سیکولر گروپ کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ایک دینی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرکے اپنا سیکولر تشخص دھندلانا نہیں چاہتے تھے مگر ”جماعتی گروپ “کا گریز بظاہر سمجھ میں نہیں آتا۔ پی ٹی آئی کے ”جماعتی گروپ “ میں جاوید ہاشمی ‘اعجاز چوہدری اور میاں محمود الرشید شامل ہیں۔ شاید اس اتحاد سے وہ اس لئے گریزاں تھے کہ کہیں انہیں اپنی سیٹ کی قربانی نہ دینا پڑے۔
مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تقریباً ایک ماہ تک چھ نشستوں میں جماعت اسلامی کے مذاکرت چلتے رہے۔ دونوں اطراف سے بڑی جاندار مذاکرتی ٹیمیں بات چیت میں حصہ لیتی رہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کی ٹیم میں میاں حمزہ شہباز،خواجہ سعد رفیق، پرویز ملک اور ایازصادق شامل تھے گاہے بگاہے احسن اقبال اور پرویزرشید بھی معاونت کرتے رہے ۔جماعت اسلامی کی ٹیم میں ڈاکٹر وسیم ، میاں مقصود، امیرالعظیم اور نذیر جنجوعہ شامل تھے۔ بات چیت کا آغاز بڑے ہی خوشگوار ماحول میں ملک وقوم کے مفاد کو اوّلین ترجیح قرار دینے سے شروع ہوا آخر وقت تک یہی فضا قائم رہی ۔مسلم لیگ کے ذرائع سے جب ہماری براہ راست ملاقات ہوئی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ جماعت اسلامی نے کسی مرحلے پر بھی کوئی غیر حقیقت پسندانہ مطالبہ نہیں کیا تھا ۔جب جماعت 40قومی اسمبلی کی سیٹوں کے مطالبے سے نیچے اتر کر قومی اسمبلی کی 13/اور صوبائی اسمبلی کی 26سٹیوں پر آگئی تو مسلم لیگ (ن) کی مذاکراتی ٹیم نے اسے بہت بڑی مثبت پیشرفت قرار دیا اور محض رسمی توثیق کیلئے اس سمجھوتے کو میاں نواز شریف کے سامنے پیش کیا۔ تاہم میاں نواز شریف نے بیک جنبش قلم اس تجویزکو مسترد کر دیا جماعت کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت کی روشنی میں میاں صاحب نے ایسا کیا۔
جماعت اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بنک کے حوالے سے ایک مثال ملاحظہ کریں۔2002ء کے انتخابات میں حلقہ این اے54سے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما راجہ ظفر الحق پیپلزپارٹی کے نوجوان رہنما سے شکست کھا گئے۔ پیپلز پارٹی کے زمرد خان 31ہزار ووٹ لے کر صرف 2700 ووٹوں کی برتری سے انتخاب جیت گئے۔یاد رہے اس وقت اس حلقے سے جماعت اسلامی نے ساڑھے بارہ ہزار ووٹ حاصل کئے تھے۔اگر یہ ووٹ راجہ ظفر الحق کو مل جاتے تووہ یقینا جیت جاتے۔ مذاکراتی ٹیم میں شامل جماعت اسلامی کی ایک اہم شخصیت نے مجھے بتایا کہ 2002ء کے انتخابات میں اگرمسلم لیگ(ن) کو جماعت اسلامی کی حمایت حاصل ہوتی اور اُن کے درمیان اتحاد قائم ہوتا تو کم از کم45 مزید سیٹیں مسلم لیگ (ن) کو مل جاتیں۔2002ء کے انتخابات میں این اے 66سرگودھا میں جماعت اسلامی کے امیدوار کو 39000 اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو 29000 ووٹ ملے جبکہ پیپلز پارٹی کے تسنیم قریشی 40000 ووٹ لیکر تقریباً ایک ہزار کی سبقت سے قومی اسمبلی کی سیٹ جیت گئے اگر مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی میں اتحادہوتا تو دونوں کے مشترکہ ووٹ 68000 ہوتے اور جماعت یا ن لیگ جس کے پاس بھی یہ نشست ہوتی وہ جیت جاتی۔مسلم لیگ (ن) کو اندازہ نہیں کہ اب پی ٹی آئی بھی مسلم لیگ(ن) کے روایتی ووٹوں میں سے ایک بڑا حصہ لے گی۔ اسی طرح جماعت بھی ہر نشست پر پندرہ بیس ہزار ووٹ لے سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کا اتحاد بھی مسلم لیگ (ن) کے راستے کا ایک بھاری پتھر ہے۔ ہمارے خیال میں مسلم لیگ (ن) کو ان زمینی حقائق کا کماحقہ ادراک نہیں۔ یہاں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ جماعت اسلامی نے صوبہ سرحد میں اپنی روایتی حلیف جماعت جمعیت علمائے اسلام سے اتحاد کیوں نہیں کیا۔ اگر ہم ہاتھ میں انصاف کا ترازو تھام کر بات کریں تو میں یہ کہوں گا کہ اپنی ذاتی زندگی میں زاہد شب زندہ دار منور حسن نے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے سلسلے میں تو بڑا کمپرومائیزنگ طرز عمل اپنایا۔ وہ دوبار عمران خان کے دردولت پر تشریف لے گئے۔ وہ مسلسل چار ہفتوں تک مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مذاکرات کی چھ نشستوں کو مانیٹر کرتے رہے۔ یہاں بھی اُن کا طرز عمل لچکدار تھا مگر ایم ایم اے کی بحالی اور صوبہ سرحد میں جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ اتحاد قائم کرنے میں اُن کا طرز عمل غیر لچکدار رہا وہ گزشتہ دو برس سے ایک ہی بات پر اڑے رہے اور ڈٹے رہے کہ ایم ایم اے کو بحال کرنے سے پہلے یہ تعین کیا جائے کہ اسے بے حال کس نے کیا تھا۔ جماعت اسلامی اور جمیت علمائے اسلام کے درمیان صوبہ خیبر پختونخوا میں مفاہمت نہیں ہوئی تو وہاں کے عوام کو اگلے پانچ سال بھی ایک انتہائی کرپٹ حکومت کو بھگتنا پڑیگا۔
مسلم لیگ(ن)، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے قائدین اس بات کا ادراک کیوں نہیں کرتے کہ پیپلزپارٹی کے جیالے پارٹی سے کتنے ناراض اور نالاں کیوں نہ ہوں بالآخر جیو بھٹو کا نعرہ لگا کر ووٹ پیپلزپارٹی کو ہی دینگے کیونکہ اُنکے پاس کوئی اور آپشن نہیں۔ منور حسن کی ”سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ پالیسی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی کیونکہ یہ ایک خوشنما اصطلاح تو ہے مگر قابل عمل نہیں۔ بہرحال مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کے قائدین کو عرش سے نیچے اُتر کر زمینی حقائق جاننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اسی میں پانچ سالہ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کی ماری ہوئی قوم کا بھلا ہے۔
تازہ ترین