• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ دنوں میں پاکستان کے میڈیا میں حکمرانوں اور ارکان پارلیمینٹ کے ٹیکس ادا نہ کرنے کی بازگشت پر پاکستان کو امداد دینے والے ممالک کا سخت ردعمل دیکھنے میں آیا جس کی حالیہ مثال گزشتہ دنوں برطانوی پارلیمینٹ میں کی جانے والی وہ بحث ہے جس میں پاکستان کو مستقبل میں برطانیہ کی جانب سے دی جانے والی امداد کو پاکستان کے اشرافیہ اور سیاستدانوں سے ٹیکسوں کی وصولی سے مشروط کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ واضح ہو کہ برطانیہ کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو پاکستان کو ہر سال غربت میں کمی، تعلیم اور صحت کی مد میں ایک کثیر رقم امداد کے طور پر دیتے ہیں۔ برطانیہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت، ناخواندگی اور صحت کی ناگفتہ بہ صورتحال کے پیش نظر 2014-15ء میں اپنی امداد 267 ملین پاؤنڈ سے بڑھاکر 446 ملین پاؤنڈ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے بعد پاکستان برطانوی امداد حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے گا مگر اس سلسلے میں ڈیوڈ کیمرون کی حکومت کو برطانوی ارکان پارلیمینٹ کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی حالیہ مثال گزشتہ دنوں برطانوی پارلیمینٹ کی کمیٹی برائے بین الاقوامی ڈیولپمنٹ کی وہ رپورٹ ہے جس میں مستقبل میں اس امداد کو پاکستان کے دولت مند افراد اور سیاستدانوں سے ٹیکسوں کی وصولی سے مشروط کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا پاکستان کے صحت و تعلیم کے منصوبوں کو فنڈز فراہم کرنا اس وقت تک ناانصافی پر مبنی ہو گا جب تک پاکستان کرپشن اور ٹیکس چوری جیسے مسائل کو حل نہیں کر لیتا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کے امراءء اور ارکان پارلیمینٹ ٹیکس ادا کرنے اور غریب عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس حوالے سے کمیٹی نے پاکستان کے بورڈ آف ریونیو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صرف 0.57 فیصد سے بھی کم لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور پاکستانی پارلیمینٹ کے 30 فیصد سے بھی کم ارکان ٹیکس گزار ہیں جبکہ گزشتہ 25 سالوں میں کسی پر بھی ٹیکس چوری کا مقدمہ نہیں بنایا گیا۔ برطانوی پارلیمینٹ کی اس رپورٹ میں پاکستان کو خبردار کیا گیا ہے کہ ٹیکس انتظامیہ فوری طور پر اصلاحات لائے اور امداد کا آڈٹ کرائے بصورت دیگر پاکستان کو نتائج کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ برطانوی اخبارات ”ٹیلی گراف“ اور ”دی میل“ نے بھی پاکستانی حکمرانوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضرورت مندوں کے نام پر حاصل کی گئی برطانوی ٹیکس دہندگان کی رقم پاکستان میں انتخابی مہم پر خرچ کی جارہی ہے۔ برطانیہ کے علاوہ دیگر عالمی امدادی اداروں نے بھی پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان کے ٹیکس نظام میں اصلاحات نہ لائی گئیں تو پاکستان کی بین الاقوامی امداد کم یا مکمل طور پر بند ہونے کا خطرہ ہے۔ اس صورتحال پر سابق وزیر خزانہ اور ایوان بالا کے رکن سلیم مانڈوی والا نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی مالی امداد کو ٹیکس اصلاحات سے جوڑنا نامناسب ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں اس سے قبل امریکی کانگریس کے ارکان کئی بار اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ پاکستان کو دی جانے والی زیادہ تر امریکی امداد غریبوں تک پہنچنے کے بجائے کرپشن کی نذر ہو کر حکمرانوں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے لہٰذا امریکہ اپنی امداد پاکستان کی اشرافیہ سے ٹیکسوں کی وصولی سے مشروط کرے۔ یہ قصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کچھ سال قبل جب امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن پاکستان آئیں تو اس وقت ڈرون حملوں اور ریمنڈ ڈیوس کیس کی وجہ سے پاکستانیوں میں امریکہ کے خلاف مخالفانہ جذبات انتہا پر تھے۔ ایک موقع پر ہلیری کلنٹن نے پاکستان میں امریکی سفیر سے پوچھا کہ ہم پاکستانیوں کو اربوں ڈالر کی امداد دیتے ہیں لیکن ہم ابھی تک انہیں اپنا دوست بنانے میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے اور یہاں کے لوگ امریکہ کے اتنے مخالف کیوں ہیں؟ جس پر ہلیری کلنٹن کو بتایا گیا کہ پاکستان کو دی جانے والی زیادہ تر امریکی امداد کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے اور غریب عوام تک اس کے ثمرات نہیں پہنچتے۔ انہیں مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا پروجیکٹ ہو جو امریکی امداد سے مکمل ہوا ہو اور وہاں امریکہ کے نام کی تختی لگی ہو۔ اس کے برعکس پاکستان میں بے شمار ایسے پروجیکٹس ہیں جو چین کی امداد اور تعاون سے مکمل ہوئے اور وہاں پاک چین کے تعاون کی تختی لگی ہے کیونکہ امریکہ کے برعکس چین کی حکومت نقد امداد دینے پر یقین نہیں رکھتی بلکہ وہ منصوبوں کی صورت میں ملک کو امداد دیتی ہے جس کی مثال گوادر پورٹ، مشین ٹول فیکٹری، قراقرم ہائی وے اور چشمہ پاور جیسے پروجیکٹ ہیں جن سے عوام براہ راست مستفید ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام چین کیلئے نیک خواہشات رکھتے ہیں۔ یہ سنتے ہی ہلیری کلنٹن وہاں سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئیں کہ ”امریکہ کو بھی چین کی طرز پر پاکستان کی مدد کرنی چاہئے“۔ جس کے بعد کیری لوگر کے تحت پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد یو ایس ایڈ اور این جی اوز کے ذریعے دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔
کچھ سال قبل جب امریکہ میں مالی بحران کی وجہ سے کئی بینک دیوالیہ ہونے لگے تو ان بینکوں کے سربراہان حکومت سے بیل آؤٹ پیکیج یعنی حکومتی امداد لینے واشنگٹن پہنچے تو ان میں سے زیادہ تر اپنے نجی طیاروں میں آئے جسے میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ جن بینکوں کیلئے حکومت سے اربوں ڈالر کی امداد مانگی جارہی ہے ان کے سربراہان مدد مانگنے بھی اپنے نجی طیاروں میں آرہے ہیں اور یہ ادارے عوامی ٹیکسوں کی مد میں حاصل کی جانے والی رقم کے مستحق نہیں۔ پاکستان کی مثال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں جہاں شاہانہ انداز میں زندگی گزارنے والے غریب ملک کے امیر حکمراں بیش قیمت سوٹ اور قیمتی گھڑیاں پہنے اور مہنگے بیگ ہاتھوں میں لٹکائے پاکستان کیلئے امداد لینے بیرون ملک جاتے ہیں تو ان ممالک کے لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ ”ہم ایسے ملک کی مدد کیوں کریں جہاں کی Elite خود ٹیکس نہیں دیتے“۔ ان ممالک کے لوگوں کا یہ موقف کسی حد تک درست بھی ہے کہ پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اب تک جتنا ٹیکس ادا کیا ہے وہ ان کے ایک Birkin ہینڈ بیگ کی مالیت سے بھی کم ہے۔ واضح ہو کہ پنک لیدر سے تیار کئے گئے ایک Brikinہینڈ بیگ کی قیمت 10 لاکھ روپے سے ایک کروڑ روپے کے درمیان ہے۔ اسی طرح پارلیمینٹ کے ایک سابق رکن آفتاب شیر پاؤ نے صرف 58,862 روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ دیگر ممبران پارلیمینٹ کے پاس NTN نمبر ہی نہیں۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ یہ سب لوگ ملک سے اتنا کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی بدلے میں ملک کو کچھ نہیں دیتے اور دنیا میں اپنے ملک کی جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا ٹیکس نظام کرپشن کا شکار ہے جس کی زندہ مثال خود نیب کے چیئرمین کا حالیہ بیان ہے جس میں انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ملک میں یومیہ 15/ارب روپے سے زائد کی کرپشن ہو رہی ہے جو سالانہ تقریباً 5 ہزار ارب روپے بنتی ہے۔ اسی طرح کا ایک بیان سابق وزیر خزانہ شوکت ترین بھی دے چکے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ایک طرف ہماری کرپشن اور اشرافیہ کے ٹیکس نہ دینے کے چرچے پوری دنیا میں ہیں تو دوسری طرف ہم غریب ملک ہونے کے ناتے بیرونی ملکوں سے عوام کی بہتری کے نام پر امداد وصول کر رہے ہیں جو ان پر خرچ ہونے کے بجائے کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے جبکہ رینٹل پاور پروجیکٹس میں اربوں روپے کی کرپشن، حج اسکینڈل اور حکمرانوں کے ٹیکس ادا نہ کرنے کے واقعات سے دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف منفی تاثر پیدا ہو رہا ہے اور پاکستان کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہونے لگا ہے۔
بچپن میں سنا کرتے تھے کہ فلاں شخص رشوت خور اور کرپٹ ہے تو معاشرہ اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتا تھا۔ آج یہ زمانہ آگیا ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص رشوت نہیں لیتا تو لوگ اسے تعجب سے دیکھتے ہیں۔ یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ کرپشن کیس میں اگر ملک کی عدالتیں کسی کو سزا بھی دیتی ہیں تو وہ وکٹری کا نشان لہرا کر فخر محسوس کرتا ہے۔ آج کے دور میں ہم کرپشن جیسی برائی کو برائی نہیں سمجھ رہے اور کرپٹ لوگوں سے نفرت کرنے کے بجائے دولت کی وجہ سے اسے عزت کا مقام دے رہے ہیں۔ افسوس 18کروڑ لوگوں کے اس ملک میں کوئی انا ہزارے نہیں جو کرپشن اور ٹیکس چوروں کے خلاف آواز بلند کر سکے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے عوام آئندہ انتخابات میں ایسے لوگوں کو منتخب کریں جن کا ماضی کرپشن سے پاک ہو اور وہ لوٹ مارمیں ملوث نہ رہے ہوں۔
تازہ ترین