• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارے سیاسی، سنیاسی بابے ناکام ہو گئے۔ ستاروں کی چالیں اُلٹی پڑ گئیں، زائچے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ طوطا فال نکالنے والے بھی اپنی دکان لپیٹ دُم دبا کر بھاگ گئے۔ قبرستان میں دبائے مٹی کے پتلے بھی پتھر ہو گئے۔ بڑے درباروں پر حاضری بھی کام نہ آئی۔

خس کم جہاں پاک، میرے کپتان نے سب کو مات دے دی۔ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے، پنجاب میں ایک بار پھر خواہش مندوں کی ساری وکٹیں اُڑا دیں اور بزدار ہی فاتح قرار پائے۔ آخر کیوں یہ سارا کھیل تماشہ رچایا گیا؟ کس کو نیچا دکھایا گیا اور کس کو اُونچا اُڑایا گیا، طویل کہانی کو مختصر کئے دیتے ہیں کہ پنجاب میں طوفان ابھی تھما نہیں، سمندر کی یہ بپھری لہریں جو اچانک تھم سی گئی ہیں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اس فیصلے سے نہ میرا کپتان مطمئن ہے، نہ کھلاڑی اور نہ ہی عوام۔

سبھی پریشان ہیں اور حیران بھی کہ آخر کپتان پنجاب کی گڈگورننس سے کیسے مطمئن ہو سکتے ہیں اور یہ کیسی گڈگورننس ہے کہ حکومت کی ناک تلے سب اٹھائی گیرے، سٹے باز اجناس کے کاروبار میں عوام کے ساتھ جوأ کھیل رہے ہیںاور سرکار بدستور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے اور میرا کپتان پھر بھی مطمئن ہے۔ آخر کیوں؟ تو اطلاعاً عرض ہے کہ بزدار نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ وہ خاموش مگر ہوشیار سیاست دان ہیں۔

جوڑ توڑ کے ماہر نے اس بار کپتان کے ہاتھ میں جنوبی پنجاب کارڈ کا ایک ایسا نسخہ تھما دیا ہے جس سے کپتان مطمئن ہے کہ آئندہ کسی بھی انتخابی معرکے میں تحریک انصاف ایک بار پھر سرخرو ہو کر آگے بڑھے گی۔ وہ اس لئے بھی مطمئن ہے کہ بزدار نے پنجاب اسمبلی کے ایوان میں عددی قوت برقرار رکھنے کے لئے ملتان اور بہاولپور میں جنوبی پنجاب کے الگ الگ سیکرٹریٹ بنانے پر اتفاق کر لیا ہے۔

اس سے قبل صرف بہاولپور کو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنانے کے فیصلے پر اسٹیک ہولڈر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی شدید تحفظات رکھتے تھے اور شاہ محمود قریشی بھی بزدار سے نالاں تھے جبکہ ان کے مقابلے میں (ق) لیگ کے طارق بشیر چیمہ کا بہاولپور میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنانے کے حوالے سے شدید دبائو تھا۔ اب بزدار حکومت نے اپنے سیاسی حریف اور اتحادی دونوں کو راضی کر لیا ہے۔

دونوں سیکرٹریٹس میں پنجاب کے 16محکموں کے اسپیشل سیکرٹری ہفتے میں دو دن ملتان اور دو دن بہاولپور میں بیٹھیں گے۔ عثمان بزدار نے وزیراعظم کو تحریک انصاف حکومت کے عوامی وعدوں کی تکمیل کی یقینی دہانی کراتے ہوئے جنوبی پنجاب ہی کی پانچ تحصیلوں احمد پور شرقیہ، چشتیاں، کوٹ ادو، شجاع آباد اور تونسہ شریف کو ضلع بنانے کا بھی حتمی فیصلہ اور مشاورتی عمل مکمل کر لیا ہے لیکن کیا جنوبی پنجاب کارڈ، پنجاب اسمبلی میں انیس بیس کے فرق کے عددی گورکھ دھندے سے بزدار اپنا اقتدار بچا پائیں گے؟ خصوصاً ایسے حالات میں کہ فیصل آباد، سرگودھا، بھکر، وہاڑی، چنیوٹ، شیخوپورہ، حافظ آباد، ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و پنجاب اسمبلی کی اکثریت ان کے طرز حکومت سے نالاں ہو۔

اسی طرح جنوبی پنجاب کا ایک بڑا مضبوط گروپ جہانگیر ترین کے زیر اثرہے اور اس گروپ کا سردار عثمان بزدار کے ساتھ مستقبل کی انتخابی سیاست میں مفادات کا ٹکرائو بھی جاری رہے۔ پنجاب کی گڈگورننس کے حالات جس نہج پر ہیں کپتان خود تجزیہ کرلیں کہ جنوبی پنجاب کارڈ کے عوض کہیں پورا پنجاب ہی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ پنجاب کابینہ کی صورتحال اس سے بھی زیادہ مایوس کن نظر آتی ہے۔

صرف چار اراکین، فیاض الحسن چوہان، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں اسلم اقبال اور محدود پیمانے پر عبدالعلیم خان ہی فعال نظر آتے ہیں جبکہ میاں اسلم اقبال عوامی سطح پر متحرک ضرور ہیں لیکن بےاختیار محسوس ہوتے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان بطور وزیر اطلاعات بزدار حکومت کے دفاع میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں لیکن ان تمام شخصیات میں ڈاکٹر یاسمین راشد سب سے نمایاں نظر آتی ہیں۔ باقی تمام کابینہ سوئی پڑی ہے اور کوئی بھی کپتان کی سوچ اور تحریک انصاف کے منشور پر عمل درآمد کرتا نظر نہیں آتا۔

اگر کپتان کے نزدیک بزدار حکومت کا بہترین کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پنجاب میں کورونا وبا پر بہترین انداز میں قابو پایا تو پہلا نقطہ یہ ہے کہ کورونا ایک وبا ہے اور یہ جس طرح آئی اسی طرح ٹلے گی۔

فی الحال تو اس پر قابو پانا انسانی دسترس سے باہر دکھائی دیتا ہے۔ دوسری صورت میں اگر پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کے لئے کپتان کا یہی میرٹ ہے تو پھر سب سے موزوں امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو ہی ہونا چاہئے جنہوں نے کورونا کے خلاف مضبوط اعصاب اور قوتِ ارادی کے ساتھ یہ جنگ فرنٹ لائن مجاہدہ کے طور پر لڑی اور دن رات انتھک کام کیا۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کپتان کی پنجاب ٹیم کی سب سے نڈر عوام سے قریب تر اور مخلص قائد ہیں۔ مستقبل کی ذمہ داریوں کے لئے ایک بہترین چوائس ہو سکتی ہیں۔

دورنِ خانہ خبر یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے کپتان کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور میں جو مورچہ لگایا ہے اور ایک متحرک سیاست دان کے طور پر شہباز شریف کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اس بات پر قائل کرلیا ہے کہ جو ڈرگیا سو مر گیا۔

مستقبل کی صف بندی، پنجاب اور بلوچستان میں بڑی تبدیلیوں کے لئے عید قربان کے بعد اگر کپتان نے کوئی بڑے فیصلے نہ کئے تو پیپلز پارٹی، ن لیگ، جے یو آئی ف، ق لیگ، بی این پی مینگل مل کر ایسا مورچہ لگائیں گے کہ جس سے کپتان کا بچ نکلنا انتہائی مشکل ہوگا۔ اگرچہ کپتان آخری گیند تک کھیلنا چاہتا ہے لیکن وقت کم، مقابلہ سخت ہے۔

کسی سیانے کیا خوب کہا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم کتنے آہستہ آگے بڑھ رہے ہو، ناکامی تب آتی ہے جب تم رک جاتے ہو، مصلحتیں تمہیں گھیر لیتی ہیں اور پھر تم اپنی منزل سے بھٹک جاتے ہو۔

تازہ ترین