• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سر ونسٹن چرچل نے عین حالت جنگ میں اپنے جس عدالتی نظام پر اطمینان کا اظہار کیا تھا کاش ہمیں یہ اعتماد و یقین عمومی و غیر ہنگامی حالات میں ہی میسر آ جائے کیونکہ اس کوچۂ انصاف سے مظلومین بالعموم آنسو بہاتے اور آہیں بھرتے ہی نکلے ہیںلیکن اسی بڑی عدالت کے ایک باضمیر بڑے منصف کی انسان نوازی یا آئین و انصاف پسندی نے ناانصافی کے خلاف ایسا تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا کہ ٹوٹی ہوئی امیدیں جڑنے لگیں۔ آج ایک اور ماہتاب نے انصاف کی جو کرنیں بکھیری ہیں شاید یہ کئی مردہ ضمیروں کو خواب غفلت سے جگا دیں۔ یہ وہی روشن فکر انسان ہیں جن کی زندگی کا چراغ گل کرنے کے لئے شدت پسندی نے کاری وار کیا تھا مگر قدرت نے ان کی تقدیر میں یہ عزیمت لکھی تھی ۔ الفاظ کا کیا خوبصورت چنائو ہے، جیسے روتے ہوئے مظلومین کے آنسو پونچھے جا رہے ہیں۔ ’’سزا سے پہلے ہی کسی شخص کو قید میں ڈال دینا اس کی بہت بڑی تذلیل اور بے عزتی ہے ایک شخص کی گرفتاری سے نہ صرف وہ شخص بلکہ اس کا خاندان اور متعلقہ لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ایک شخص کی گرفتاری اس کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے جس سے معاشرے میں اس کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے اور اُسے تلخ ترین تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور وہ بدنام ہو جاتا ہے۔ آج کے تیز اور مضبوط ترین پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دور میں ایک شخص کی گرفتاری اور اس پر لگائے جانے والے الزامات اس کے خلاف ایک مذموم مہم کو فروغ دیتے ہیں اس کے حوالے سے سرگوشیوں اور بڑبڑاہٹ میں اضافہ ہوتا ہے نتیجتاً اس کے خاندان کی تذلیل، گھبراہٹ، پریشانی اور مصائب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ گرفتار کئے گئے اکثر لوگ اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں اس طرح انہیں اپنے دفاع کی تیاری سے روک دیا جاتا ہے یوں سارا بوجھ خاندان کے معصوم افراد کے کندھوں پر آ جاتا ہے‘‘۔ اس درد ناک صورتحال کا ادراک کرنے کے لئے اگلے الفاظ کس قدر واضح اور شفاف ہیں ’’اکثر اوقات عام لوگ سزا ملنے سے پہلے کی گرفتاری اور سزا ملنے کے بعد کی گرفتاری کے فرق کو نہیں سمجھتے ہیں‘‘۔

ہر انسان خواہ کتنا ہی بے ضرر یا فرشتہ صفت ہی کیوں نہ ہو اگر روشن ضمیر اور سچائی کا علمبردار ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اس ظالم سماج میں اس کے کم یا زیادہ مخالفین نہ ہوں۔ قانون کے ظالمانہ ہتھکنڈوں اور بے رحمانہ استعمال سے اگر اس کی قطعی ناجائز گرفتاری بھی ہو جاتی ہے تو نہ صرف اس کی بلکہ اس کی معصوم فیملی کی زندگی بھی ہمیشہ کے لئے اجیرن ہو جاتی ہے اور یہ مبینہ مخالفین اس نیک انسان اور اس کے کنبے کو بدنام کرنے کا کوئی موقع فروگزاشت نہیں کریں گے ۔ اس لئے ضمانت کے حوالے سے ہمارے صدی پرانے جامد قوانین میں عصری تقاضوں کی مطابقت سے اصلاحات ہونی چاہئیں۔ امریکا جیسے بڑے ملک میں ایک سیاہ فام کی گردن پر ایک پولیس آفیسر نے گھٹنا رکھ کر اسے بے دردی سے مار ڈالا وہ مسکین کہتا رہا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے، بلاشبہ ہمارے انسانی جذبات تقاضا کرتے ہیں کہ اس وحشی کو فوری لٹکا دیا جائے۔ اس کے خلاف بشمول یورپ پورے امریکا میں کس قدر خوفناک عوامی مظاہرے ہوئے مگر آفرین ہے ان اقوام پر کہ جب تک قانونی تقاضوں کی مطابقت میں جرم ثابت نہیں ہوتا ہر شخص بے گناہ ہے اسی اصول پر اس قاتل کی قبل از گرفتاری ضمانت ہو گئی، ہم انسانی عظمت کے نام نہاد دعویداروں کے چہروں پر یہ تھپڑ ہے کہ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملزم کے خلاف جرم ثابت کرنے کے لئے ثبوت موجود نہیں یا ناکافی ہیں، اپنے شہریوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ احسن اقبال اور رانا ثناء اللہ کے معاملے میں کیا ہوا ہے اور اب خواجہ برادران کے متعلق اس زیر بحث فیصلے میں عدالت نے کیا ریمارکس تحریر فرمائے ہیں یہ کہ خواجہ برادران کے خلاف نیب کیس انسانی تذلیل کی بدترین مثال ہے۔

سپریم جوڈیشری نے اپنے فیصلے میں جو بات کی ہے اس کی کس قدر مثالیں ہمارے سامنے ہیں یہ امتیازی سلوک نیب کی ساکھ اور غیر جانبداری کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور یہ مفروضہ مضبوط ہوتا ہے کہ نیب کو اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے بڑی کم ظرفی ہو گی اگر یہاں جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی غیرقانونی و ظالمانہ گرفتاری کو بیان نہ کیا جائے ایک معزز اور ذمہ دار انسان آپ کی دسترس میں ہے آپ کے بلاوے پر حاضر ہو رہا ہے آپ پھر بھی اس مدبر انسان کو گرفتار کرتے ہیں اور بغیر کسی مقدمے کے اندراج کے انتہائی سفاکیت سے ایک سو اٹھائیس دنوں سے پابند سلاسل رکھے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس امر کو واضح کیا ہے کہ نیب وفاداریاں تبدیل کرانے سیاسی جماعتوں کو توڑنے، مخالفین کا بازو مروڑنے اور انہیں سبق سکھانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ درویش کی نظروں میں ہماری سپریم جوڈیشری کا یہ فیصلہ انسانی حقوق، وقار اور آزادیوں کے لئے سنگ میل کی حیثیت کا حامل ہے اس کی روشنی میں ہمیں نہ صرف اپنے نظام انصاف بلکہ ادارہ احتساب میں بھی شفاف اور دلیرانہ اصلاحات لانا ہوں گی یا اِس کا بستر ہی گول کرنا ہو گا۔

تازہ ترین