• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی شہر بوسٹن میں15/اپریل کو تعطیل کے روز سالانہ میرا تھون ریس کے خاتمے کی لائن پر بم دھماکوں سے تقریباً 135/افراد زخمی اور 2 /اموات کے المناک اور قابل مذمت واقعے نے پورے امریکہ کو ہلاکر رکھ دیا۔ امریکہ میں آباد کئی ملین مسلمانوں نے 11ستمبر کے سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد کئی سال تک ایک مشکوک اور زیر نگرانی کمیونٹی کے طور پر زندگی بسر کی۔ امریکہ میں پلنے والی نئی مسلمان نسل بھی اس سانحہ کے اثرات سے نہ بچ سکی اور اب گیارہ سال کے ایک مشکل صبر آزما عرصہ کے بعد صورتحال کچھ معمول پر آرہی ہے اور مسلمان کمیونٹی بھی ایک بار پھر احتیاط اور خلوص کے ساتھ خود کو امریکہ کے سیاسی نظام میں شریک کرنے کے لئے سرگرم ہورہی ہے تو بوسٹن میں بم دھماکوں کی خبر نے انہیں ایک بار پھر صدمے، تشویش، خوف اور انجانے اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ مسلمان آبادی والے علاقوں میں گلیاں اور سڑکیں خاموش اور خالی نظرآنے لگیں، نیویارک میں بروکلین کے پاکستانی علاقے میں بھی یہی کیفیت تھی مگرخدا بھلا کرے صدر اوباما کا کہ وہ جب ٹی وی اسکرین پر آئے تو بوسٹن کے پولیس چیف اور میئرکی طرح پوری احتیاط سے کسی گروپ یا افراد کی جانب اشارہ کئے بغیر انتہائی ذمہ داری سے کہا کہ ابھی ہم تحقیقات کررہے ہیں اوراس واقعے کے ذمہ دار عناصر کی نشاندہی اور ذمہ داری کے بارے میں حقائق تلاش کررہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ وہ فوری طور پر القاعدہ یا کسی ایسے گروپ کی نشاندہی کردیتے تو امریکہ کے مسلمانوں کے لئے برے دنوں کا آغاز آج ہی سے شروع ہوجاتا۔ جس مسلمان سے بھی میری بات ہوئی وہ سب ایک ہی دعا مانگ رہے ہیں کہ خدا کرے اس واقعے کے ذمہ داروں کی نشاندہی اور گرفتاری جلد از جلد ہوجائے اور خدا کرے اس کا نام اور مسلک بھی غیرمسلم ہو ورنہ گزشتہ گیارہ سالوں میں امریکی شہروں، ریاستوں اور وفاقی حکومتوں کی مشینری میں اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے بعض وہ عناصر جو مسلمانوں کی سخت نگرانی اور امیج کو منفی شکل دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں وہ کھل کر کہتے کہ ہمارے موقف اور رائے کتنی درست ہے۔ مثلاً نیویارک پولیس کے کمشنر کیلی نیویارک کی مساجد بلکہ نیویارک سے بھی باہر اپنے پولیس افسر بھیج کر مسلمانوں کی نگرانی کرنے کے خفیہ آپریشن کے تنازع اور اعتراضات کو ختم کرکے اپنے اقدام کے حق میں جواز حاصل کرلیتے۔ آخر امریکی نظام کے اصول مساوات، قانون کی بالاتری اور ٹرانسپیرنسی کی بنیادوں پر قائم ہیں اور امریکی شہری کیلئے تو یہ نظام بڑی حد تک اصولی اور مساوی نظر آتا ہے۔ اسی نظام کی آزادی کی بدولت مجھ جیسے غیرامریکی صحافی کیلئے امریکہ کے سیاسی نظام میں اب تک تمام اہم کانگریس مینوں، سینیٹروں، سیاستدانوں اور بااثر شخصیات تک رسائی اور خصوصی انٹرویوز لینے کا اعزاز اور موقع مل سکا ورنہ ایشیائی اور افریقی ممالک میں غیرملکی میڈیا کے لئے اتنی رسائی اور پذیرائی کہاں اور کونسا ملک دے گا؟ بہرحال فی الوقت تو امریکہ کے مسلمان اور پاکستانی دلوں کو تھامے یہ دعا کررہے ہیں کہ بوسٹن میں دھماکوں کا ذمہ دارکوئی اور ہی نکلے کیونکہ امریکہ کے مسلمان 9/11 کے بعد اب ایسے کسی واقعہ اور عوامی ناراضی کے اثرات برداشت نہیں کرسکتے۔ امریکی صدر اوباما تادم تحریر بہت سی ایسی اطلاعات اور اقدامات سے باخبر کئے جاچکے ہیں کہ جن تک دسترس کسی اور کو نصیب نہیں مگر صدر اوباما کو عوام کے سامنے لانے سے قبل مختلف سیکورٹی تقاضوں، سیاسی اور معاشی اثرات اور امریکی عوام کے ممکنہ ردعمل کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ دعا ہے کہ اس واقعے کے حتمی حقائق و اثرات سے امریکی مسلمان کسی مزید نقصانات سے بچے رہیں۔
اب ذرا اپنے پاکستانی انداز کا بھی کچھ ذکر ہوجائے۔ گزشتہ روز نیویارک کے ایک ہوٹل میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ”اپنا“ کے ممبران کا موسم بہار کا اجتماع ہوا۔ تین روزہ پروگرام میں ایک مذاکرہ بھی شامل تھا جس کا موضوع ”پاکستان میں ڈاکٹروں کے قتل“ تھا۔ اس کا مقصد پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم کی جانب سے ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت اور احتجاج تھا۔ مذاکرہ کے ماڈریٹر اور مقرر ڈاکٹر تقی تھے جبکہ پینل میں شریک دہری شہریت کے قانون سے متاثرہ سابق رکن قومی اسمبلی فرح ناز اصفہانی اور سابق رکن پنجاب اسمبلی ڈاکٹر امینہ بٹر تھیں ان دونوں کو عام انتخابات کے بجائے خواتین کیلئے مخصوص نشستوں پر پیپلزپارٹی نے نامزد کیا تھا۔ مذاکرہ پینل کی شریک تیسری خاتون سینئر صحافی بینا سرور تھیں۔ سامعین مذاکرہ میں اکثریت امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تھی جو ”اپنا“ کے ممبر بھی ہیں۔ جہاں تک پاکستان میں ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کا تعلق ہے تو ایسے ناجائز اور بلاجواز قتل پر ”اپنا“ ہی کیا دنیا کا ہر انسان شدید مذمت کرے گا بحیثیت پاکستانی بھی کسی بھی پاکستانی کا ناحق خون شرمناک اور قابل مذمت اور قابل سزا جرم ہے۔ ”اپنا“ جیسی پروفیشنل تنظیم کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹروں کا قتل ایک اہم موضوع اور انتہائی قابل مذمت فعل ہے جس کے لئے ”اپنا“ نے بالکل درست طور پر یہ مذاکرہ منعقد کرکے اپنی ڈاکٹر برادری کی خدمت کی ہے مگر مذاکرہ پینل کے بعض اراکین نے جب اس موضوع کو اپنے ذاتی ایجنڈے کے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی اور مذمتی قرارداد میں بھی اسے پاکستانی ڈاکٹروں کا قتل قرار دینے کے بجائے مسلک کا رنگ دینے کی کوشش کی تو مذاکرہ کے بعض سامعین نے سوال و جواب کے مرحلہ پر اعتراضات اور اپنے موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے ڈاکٹر پاکستانی شہری ہیں اور ”اپنا“ پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی غیرمنافع بخش تنظیم اور پاکستانی، امریکن شناخت کی حامل ہے لہٰذا بعض مقررین اس کلنگ کو دوسرا کوئی رنگ دینے کی کوشش کے بجائے پاکستان کے قومی نقصان اور قومی مسئلہ کے طور پر مذمت و احتجاج ہونا چاہئے۔ ایک موقع پر مذاکرہ کے مقرر ڈاکٹر اور بعض سامعین ڈاکٹرز کے درمیان تلخ کلامی ہوتے بھی دیکھی گئی جوکہ مذاکرہ اور احتجاج و مذمت کے مقاصد کے بھی منافی تھی۔ ”اپنا“ (A.P.P.N.A) کے نام، چارٹر، بائی لاز، ممبر شپ اور مقاصد کے لحاظ سے پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی ایک تنظیم ہے جو امریکہ کے پاکستانیوں کی سب سے ممتاز، موثر، منظم اور پروفیشنل تنظیم ہے اور یہی اس کی شناخت اور محور ہے۔ امریکہ میں اندازاً 16ہزار پاکستانی ڈاکٹرز آباد ہیں جن میں سے تنظیم کے صدر ڈاکٹر جاوید سلیمان کے مطابق 4ہزار اس تنظیم کے ممبر ہیں لہٰذا ”اپنا“ کو اپنی پاکستانی، امریکن شناخت کے ساتھ فروعی مسائل میں الجھنے کے بجائے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی روش اپنانا چاہئے بقیہ 12ہزار پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کو بھی اپنے ساتھ شریک کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنے میں سب کا بھلا ہے نہ کہ مذاکروں میں پاکستانیوں کو مزید تقسیم کرنے والے فروعی یا ذیلی مسائل کو اچھالنا چاہئے۔ مذاکرہ کے مقرر اور سامعین دونوں ہی ڈاکٹر اور ”اپنا“ کے ممبر تھے مگر ایک دوسرے سے تلخ تھے۔ ”اپنا“ کو تو امریکہ میں پاکستانیوں کی رہنمائی کے لئے قائدانہ رول ادا کرکے اپنی خدمات کو مزید مفید بنانا چاہئے۔ قوس و قزح کی طرح ہر رنگ و مزاج کے پاکستانی کو ساتھ لے کر متحدہ پلیٹ فارم اور مقاصد کی خوبصورتی پیدا کرنے کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین