• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر دوسرے دن اخبارات میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع ہونے والی ایسی خبریں اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے مظلوم ہونے کا احساس ضرور دلاتی ہوں گی جن میں کوئی اعلیٰ حکومتی شخصیت یہ دعویٰ کرتی نظر آتی ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے آٹھ ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر موصول ہوئی ہیں، تو کبھی کوئی نمائندہ ایک ماہ کے اعداد وشمار کے ساتھ خبروں کی زینت بنتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے صرف ایک ماہ کے دوران ڈیڑھ ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان روانہ کرکے پاکستان کی معیشت میں نئی روح پھونک دی ہے مگر پاکستان کے اس نظام میں ان ستّرلاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سوائے زبانی تعریفوں کے علاوہ کبھی کچھ نصیب نہیں ہوا جبکہ گزشتہ پانچ سالوں میں سابقہ حکومت نے جو زیادتیاں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ کیں ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس وقت بھی بیرون ملک مقیم پاکستانی جن مسائل سے دوچار ہیں ان پر ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ تاہم ایک بار پھر حکمراں طبقے کے سامنے اوورسیز پاکستانیوں کو درپیش چند اہم ترین مسائل کو پیش کرنے کی جسارت کی جارہی ہے کہ شاید کوئی اس مظلوم طبقے کے مسائل کا حل نکال سکے۔
اس وقت جو سب سے اہم مسئلہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو درپیش ہے وہ یہ اس وقت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد کے پاس مینول پاسپورٹ ہیں جو ہاتھ سے تحریر کردہ ہوتے ہیں جن پر بیرونی ممالک میں ویزے کی تجدید کی سہولت بھی ختم کردی گئی ہے لہٰذا مینول پاسپورٹ رکھنے والے پاکستانیوں کو اپنے لئے کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ کے حصول کیلئے پاکستان آنا پڑتا ہے جس کیلئے یہ پاکستانی اپنے دفاتر سے چند ہفتوں کی چھٹی لیکر پاکستان آتے ہیں لیکن آج کل پاکستان میں ارجنٹ پاسپورٹ کی تیاری میں بھی مہینے لگ رہے ہیں جس کے باعث بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بہت بڑی تعدا د جو پاکستان میں کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ کے حصول کیلئے آئے تھے اب وہ پاسپورٹ نہ ہونے کے باعث واپس جانے سے بھی قاصر ہیں اوربڑی تعداد میں ان پاکستانیوں کو ملازمتوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑ رہے ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سالانہ چودہ ارب ڈالر پاکستان روانہ کرنے والے پاکستانیوں کیلئے حکومت اپنے وعدے کے عین مطابق بیرون ممالک پاکستانی سفارتخانوں میں کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ کی تیاری کا سلسلہ شروع کرتی تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو ان کی رہائش کے ملک میں ہی کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ کے حصول کی سہولت حاصل ہوتی لیکن اس کے برعکس ان پاکستانیوں کیلئے تو پاکستان میں بھی یہ سہولت اس قدر مشکل کردی گئی ہے کہ ان پاکستانیوں کو بیرون ملک اپنی ملازمتوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑرہے ہیں۔
دوسرا اہم مسئلہ حکومت کی جانب سے ایک خاص مدت سے زائد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ذاتی استعمال کیلئے پانچ سال پرانی استعمال شدہ گاڑی پاکستان لانے کی اجازت تھی جس سے حکومت پاکستان کو سالانہ چالیس ارب روپے کی رقم ڈیوٹی کی مد میں حاصل ہو رہی تھی لیکن اچانک مقامی طور پر گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں کے دباؤ اور چند مفاد پرست عناصر کی ملی بھگت کے باعث ایک منصوبے کے تحت اچانک ان گاڑیوں کی درآمد کی مدت پانچ سال سے کم کرکے تین سال کردی گئی جبکہ ان گاڑیوں کی درآمدی ڈیوٹی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کردیا گیا جس سے یہ سہولت بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے ایک زحمت بن کر رہ گئی اور حکومت کو بھی حاصل ہونے والا چالیس ارب روپے کا ریونیو تقریباً صفرہوکر رہ گیا جس سے ریاست اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں دونوں کو ہی نقصان اٹھانا پڑا لیکن اچانک ہی حکومت نے ریونیو کے حصول کے نام پر ملک میں موجود اسمگل شدہ گاڑیوں کو معمولی ڈیوٹی کے تحت لیگل کرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد تو جھوٹ اور فریب کا ایسا کھیل کھیلا گیا جس نے ایمانداری کا منہ بھی کالا کر دیا۔ اس حکومتی اسکیم میں ظاہر تو یہ کیا گیا کہ صرف ان گاڑیوں کو لیگل کیا جائے گا جو پاکستان میں بغیر ڈیوٹی ادا کئے لائی گئی ہیں اور یہ گاڑی پاکستان کی حدود میں لازمی موجود ہو تاہم حقیقت میں ہوا یہ کہ دبئی ،جاپان اور دیگر ممالک سے اس اسکیم کے شروع ہونے کے بعد ہزاروں گاڑیاں خریدی گئیں ، ان کی تصویریں ،انجن نمبر اور چیچس نمبر منگوا کر ان کی ڈیوٹیاں بھر کر ان کو لیگل کرالیا گیا جبکہ ایسی ہزاروں گاڑیوں کا پاکستان میں وجود بھی نہیں تھا لیکن ان کو لیگل کردیا گیا اور اب دو سے تین ماہ میں یہ گاڑیاں پاکستان پہنچنا شروع ہوں گی۔ معلوم نہیں ہمارے ملک میں ملکی مفادات کاتحفظ کرنے والا کوئی ادارہ موجود بھی ہے یا نہیں ،جو اسمگل شدہ گاڑیوں کی درآمد روک کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ایک بار پھر پانچ سال پرانی گاڑیوں کی اجازت دے سکے تاکہ ریاست کو بھی ریونیو حاصل ہوسکے اور بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی ان کی خدمات کا کوئی صلہ مل سکے۔
سابقہ حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے پاکستان میں موجود اپنے اہل خانہ کو فون کرنے کے عمل کو انتہائی مہنگاکردیاکیونکہ بیرون ملک مقیم ستّر لاکھ پاکستانیوں کی اکثریت ملازمت پیشہ ہونے کے باعث سال میں صرف ایک دفعہ ہی پاکستان آسکتی ہے لہٰذا ان اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں اپنے اہل خانہ سے رابطے کا واحد ذریعہ ٹیلیفون کا ہی ہے جو مشرف دور میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے کافی سستا کردیا گیا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت کو اس سہولت میں بھی نہ جانے ایسا کیا ذاتی مفاد نظر آیا کہ اچانک بیرون ملک سے پاکستان آنے والی فون کال کو سو فیصد سے بھی زیادہ مہنگا کردیا گیا اس سے سب سے زیادہ متاثر وہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہی ہوئے جو ہر سال چودہ ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان کی معاشی رگوں کو فراہم کرکے ملک کی معیشت کا ستون بنے ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر بھارت اور بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کی جانے والی فون کال بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں کئی گنا مہنگی پڑتی ہے ، اس کا مطلب ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں کو سستے فون کی سہولت فراہم کرکے بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں کو ان کی خدمات کے صلے میں ایک ایسی سستے فون کی سہولت فراہم کررہے ہیں جس سے وہ اپنے اپنے ممالک میں اپنے اہل خانہ سے آسانی سے بات کرسکتے ہیں مگر پاکستان میں اس کے مخالف رویہ اپنایا جارہاہے، تاہم پاکستان میں فون کالز مہنگی کئے جانے کا لاہور ہائیکورٹ نے سخت نوٹس بھی لیا تھا اور احکامات بھی جاری کئے کہ فوراً فون کال کے نرخ کم کئے جائیں لیکن شاید عدلیہ اس بات سے واقف نہیں ہے کہ آج بھی بیرون ملک مقیم پاکستانی انہی مہنگے ترین نرخوں پر اپنے اہل خانہ سے بات کرنے پر مجبور ہیں ،ان کا اس مسئلے پر کوئی پرسان حال نہیں ہے اور سب سے آخر میں موجودہ صورتحال کا سب سے اہم مسئلہ جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان بحیثیت ادارہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حق میں آواز بلندکررہا ہے وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بیرون ملک رہ کرہی عام انتخابات میں ووٹ کی سہولت کی فراہمی کا ہے جبکہ نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن مستقل طور پر سپریم کورٹ کو یہ باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں کہ موجودہ عام انتخابات میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو یہ سہولت فراہم کرنا ممکن نہیں ہے اور ہر پیشی میں ان اداروں کے قابل وکلاء کوئی نیا بہانہ تراش کر بیرون ملک پاکستانیوں سے انتخابات میں حصہ لینے کی امید بھی چھیننا چاہ رہے ہیں تاہم امید ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان حقائق اور حیلے بہانے کے فرق کو بہتر سمجھے گا۔
تازہ ترین