• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے اگرچہ ابھی تک بڑے بڑے جلسوں اور جلوسوں کا تو اہتمام نہیں کیا جا رہا ہے تاہم اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی بھرپور اشتہاری مہم کا آغاز کردیا ہے اور مختلف ٹیلی ویژن چینلوں کے ٹاک شو بھی انتخابی سرگرمیوں میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
قومی اسمبلی اور حکومت جو پہلی بار اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کر چکی ہیں۔ ان کے کریڈٹ میں قانون سازی کرنے سے زیادہ ڈیولپمنٹ فنڈ ہیں اور یہ بات جو کسی بھی صورت قابل ستائش نہیں ہے۔ اسمبلی کا کام قانون سازی ہے لیکن ہمارے ہاں اسمبلی میں قانون بنانے سے زیادہ فنڈ بنانے پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔ یہ ڈیولپمنٹ فنڈ ارکان پارلیمینٹ اور سینیٹروں کا امتیاز کئے بغیر سب کو جاری کئے گئے ہیں تاہم حکومت میں شامل جماعتوں کے اراکان ِ پارلیمنٹ نے اس فنڈ میں اپنے ہاتھ رنگنے میں ذرا بھی تامل نہ کیا۔ انہوں نے جس طریقے سے اس فنڈ کو استعمال کیا ہے اب اس کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں اور لاکھوں اور کروڑں روپے کے اس فنڈ کو جس طریقے سے ان ارکان پارلیمنٹ نے استعمال کیا ہے وہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ ان ارکان پارلیمنٹ نے پانچ سالوں کے دوران ٹھیکیداروں کو پالا پوسا اور پھر ان کے توسط سے جس طریقے سے رقوم ہڑپ کیں دنیا میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ارکان پارلیمینٹ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد بھی بجٹ میں رہ جانے والے ڈیولپمنٹ فنڈ جو جون2013ء تک استعمال کئے جاسکتے تھے، ٹھیکیداروں ہی کے توسط سے نکلواکر ہڑپ کرگئے ان اراکان پارلیمینٹ نے اب مبینہ طور پر ان فنڈز کو اپنی انتخابی مہم کیلئے بھی استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
پچھلی اسمبلی نے جان بوجھ کر بلدیاتی اداروں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ آئین پاکستان کے تحت ریاست اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک بلدیاتی ادارے قائم نہ کر دیئے جائیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پانچ سالوں تک کسی بھی شہر میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا بندوبست ہیں نہیں کیا حالانکہ چیف جسٹس نے کئی بار ملک میں لوکل باڈیز کے انتخابات کرانے کے بارے میں بیانات جاری کئے تھے اور چیف جسٹس نے بارہ اپریل 2012ء کو ایک بار پھر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے التوا کیلئے کوئی بھی جواز قابل قبول نہیں ہے“ لیکن چیف جسٹس کے بار بار انتباہ کو بھی نظر انداز کیا جاتا رہا، مقصد بلدیاتی اداروں کو قائم کئے بغیر پاکستان کے شہروں کو لٹیروں اور ڈاکووٴں کے حوالے کرنا تھا اور پھر ان لٹیروں سے اپنا کمیشن حاصل کرنا تھا۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں پارلیمنٹ کو بلدیاتی اداروں کے ڈیولپمنٹ فنڈجاری نہیں کئے جاتے پارلیمینٹ کا کام صرف قانون سازی کرنا ہے۔ پہلی بار اپنی میعاد پوری کرنے والی گزشتہ قومی اسمبلی کو اس کے کسی اور کارنامے کے مقابلے میں ترقیاتی فنڈ کی لوٹ کھسوٹ کے حوالے سے زیادہ یاد رکھا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جس طرح سابق وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، وزیر داخلہ، اسپیکروں اور ڈپٹی اسپیکروں کو سرکاری خرچ پر سیکورٹی اور پُرتعیش مراعات دیئے جانے کو قانون کے منافی قرار دیتے ہوئے نوٹس جاری کئے ہیں اور آڈیٹر جنرل اور اکاؤنٹنٹ جنرل کو ان کو دی جانے والی مراعات کا تخمینہ لگانے کا حکم جاری کیا ہے بالکل اسی طرح قومی اسمبلی سے آئین کی روح کے منافی جاری کئے جانے والے ترقیاتی فنڈ کی رقوم کی واپسی کا بندوبست کرنے اور ان کا تخمینہ لگانے کیلئے بھی آڈیٹر جنرل اور اکاؤنٹنٹ جنرل کو ایسا ہی حکم جاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس لوٹ کھسوٹ کا پتہ چلایا جا سکے۔ اس سلسلے میں ایک کمیشن بھی قائم کیا جاسکتا ہے تاکہ جن ارکان پارلیمینٹ نے ترقیاتی فنڈ کے نام سے جو رقمیں کھائی ہیں ان رقوم کو ان سے واپس لیکر رفاہ عام پر خرچ کیا جاسکے۔ ڈیولپمنٹ فنڈکے نام سے خوردبرد کی جانے والی رقوم کی تمام تفصیلات اخبارات میں آچکی ہیں اور یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ وہ اس لوٹ کھسوٹ میں ملوث تمام اراکان پارلیمینٹ کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکے لیکن اگر اس کے باوجود لوٹ کھسوٹ کرنے والے دوبارہ منتخب ہو جاتے ہیں تو پھر سپریم کورٹ کو ان کے خلاف ایکشن لینا ہوگا۔اب سپریم کورٹ کو ملک میں سیاست کی بنیاد، بلدیاتی اداروں کو قائم نہ کرنے کے اسباب اور اس عمل کے پیچھے کارفرما عناصر کا بھی پتہ چلانا چاہئے اور آئندہ منتخب ہونے والی اسمبلی کے بعد ملک میں چھ ماہ کے اندر اندر بلدیاتی اداروں کے بھی انتخابات کرانے کا بندوبست کرنا چاہئے کیونکہ بلدیاتی ادارے دراصل سیاستدانوں کیلئے ایک اسکول کی بھی حیثیت رکھتے ہیں اور دنیا کے کئی ایک ممالک میں مختلف شہروں کے میئر اپنے اپنے شہروں میں کامیابی سے سیاست کرنے کے بعد ملکی سیاست میں وارد ہوئے اور پھر انہوں نے اپنے تجربات کی بنا پر اپنی حکومتوں کو بھی اسی طرح مضبوط بنایا اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا اس کی مثال ہم ترکی اور ایران سے پیش کر سکتے ہیں۔ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد صدر منتخب ہونے سے قبل تہران شہر کے بھی میئر رہ چکے ہیں اور اسی طرح ترکی کے وزیراعظم رجب طیّب ایردوان جو کہ استنبول میٹرو پولیٹن کے میئر تھے اب ملک کے وزیراعظم کے طور پر فرائض ادا کر رہے ہیں۔ جمہوری ممالک میں بلدیاتی اداروں کے سربراہان کو وزراء سے بھی زیادہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور وہ ایک لحاظ سے اپنے اپنے شہر کے حکمراں ہی تصور کئے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایسے وزراء جن کو اپنی حکومت میں دیگر وزراء سے زیادہ شہرت حاصل ہوتی ہے وہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ان کو ڈیولپمنٹ فنڈ قانون کی حدود میں رہ کر استعمال کرنے کی پوری پوری آزادی حاصل ہوتی ہے۔
چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن نے جس طریقے سے پنجاب میں بیوروکریسی کو تبدیل کیا اور اس میں پنجاب کے عبوری وزیراعلیٰ نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اسی طرح امید ہے کہ دیگر صوبوں میں بھی بیورو کریسی کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے گا کیونکہ عوام واضح طور پر محسوس کر رہے ہیں کہ انتخابات صرف پنجاب ہی میں ہورہے ہیں جبکہ دیگر صوبوں میں کوئی خاص سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں اور نہ ہی بیوروکریسی میں کوئی تبدیلی نظر آتی ہے۔ عوام کے ان خدشات پر الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ صرف پنجاب ہی میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں پُرامن اور شفاف انتخابات کرائے جاسکیں۔
تازہ ترین