• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس ملک میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہو، اُس ملک میں مافیاز کنٹرول میں نہیں آتیں، جہاں آزادیٔ اظہار پر قدغن ہو، وہاں ہر ادارہ عوام کا خون چوسنے کیلئے آزاد رہتا ہے۔ یہی صورتحال اس مملکت میں ان دنوں دیکھی جارہی ہے۔ بات اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی حیران و پریشان ہے۔ گزشتہ دنوں کورونا از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس گلزار احمد نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’سمجھ نہیں آرہا، این ڈی ایم اے اربوں روپے کیسے خرچ کر رہا ہے، کسی کو ایک پیسہ بھی نہیں کھانے دینگے، کورونا کیلئے چین سے مشینری اور ادویات کس قانون کے تحت منگوائی گئیں، ایک ہی کمپنی کو سارا سامان منگوانے کی اجازت کیسے ملی؟ ضرور کوئی گڑبڑ ہے، کیوں نہ این ڈی ایم اے کو ختم کرنے اور چیئرمین کو ہٹانے کا حکم یا توہین عدالت کا نوٹس دیں۔ سپریم کورٹ نے پائلٹس کو جعلی لائسنس جاری کرنے پر افسران کیخلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے کہا کہ ڈریپ کی ناک کے نیچے جعلی ادویات مل رہی ہیں، جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والوں کیلئے موت کی سزا ہونی چاہئے لیکن موجودہ ڈرگ قوانین کے تحت زیادہ سے زیادہ دو ہفتے قید کی سزا ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ 10ہزار روپے تک جرمانہ ہوتا ہے‘‘۔ صرف اس ایک کیس میں تین اہم اداروں پر سوال اُٹھائے گئے جبکہ عدالتِ عظمیٰ میں دیگر کیسوں میں نیب سمیت متعدد ایسے اداروں پر سوالات اُٹھائے گئے ہیں جن کا براہِ راست تعلق ملکی ساکھ سے ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں دولت کی حرص و ہوس کس قدر بڑھ گئی ہے کہ جعلی ادویہ اور دوائوں میں ملاوٹ کے ذریعے عوام کی جانوں سے کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کیا جارہا۔ چینی، آٹا، پیٹرول یہاں تک کہ پیاز، ٹماٹر تک کا بحران پیدا کردیا جاتا ہے اور پھر ان اشیاء کو مہنگا کرکے اربوں روپے کما لئے جاتےہیں۔ عمران خان کی حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں ایک بار پھر 7سے 10فیصد اضافے کی منظوری دیدی ہے۔ موجودہ حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں چھٹی مرتبہ اضافہ کیا ہے یوں دو سال کے دوران قیمتوں میں 200فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ وزیراعظم ذخیرہ اندوزوں اور مہنگائی مافیا کے خلاف اپنے اعلانات پر عمل درآمد سے لاچار دکھائی دے رہے ہیں۔ مافیاز اتنی طاقتور ہیں کہ وزیراعظم جس شے کے مہنگاہونے پر کارروائی کا اعلان کرتے ہیں وہ شےمزید مہنگی ہو جاتی ہے۔ کے الیکٹرک نے لوڈ شیڈنگ جاری رکھ کر حکومتی رٹ چیلنج کر دی ہے۔ کورونا کے دوران سرکاری و پرائیویٹ اسپتالوں سے لوگ اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ غریب مریض گھروں پر لاعلاج پڑے تڑپتے رہے لیکن وہ اسپتال اس لئےنہیں گئے کہ کہیں اُنہیں کورونا کا مریض قرار نہ دے دیا جائے۔ افسوس صد افسوس! غریب عوام بےیارومددگار گھروں پر تنگ دستی برداشت کرتے رہے اور حکمران طبقات اور مافیاز اس دوران مالی فوائد سمیٹتے رہے۔

خبروں، کالموں اور سوشل میڈیا پر ان دنوں وزیراعظم کو اُن کے وہ وعدے یاد دلائے جارہےہیں جو اُنہوں نے اقتدار میں آنے سے قبل کئے تھے اور جن کے برعکس اب سارے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جو جذبہ وجنون موجودہ حکومت کو لانے کیلئے موجزن تھا وہ اب سکوت بلکہ پچھتاوے تلے دبادکھائی دیتاہے۔ بنا بریں دوسری طرف حکمران جماعت کا یہ کہنا بھی سچ ہے کہ ’متبادل‘ نہیں ہے۔ وقت کا نوحہ بھی یہی ہے کہ قیامِ پاکستان سے اب تک دراز اسٹیٹس کو نے سیاستدانوں کو ایک ایک کرکے بیچ چوراہے پر ایسا بدنام کرکے رکھ دیا ہے کہ اب ڈھونڈنے سے بھی متبادل دستیاب نہیں مگر اس میں موقع پرست سیاستدانوں کا حصہ بدرجہ اتم موجود ہے جہاں تک موجودہ اپوزیشن کی بات ہے، تو انتخابات سے قبل، سینٹ انتخابات اور چیئرمین سینٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی نے ثابت کردیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں کسی ایک مقصد کیلئے نہیں بلکہ اپنے مفاد کیلئے اتحاد کئے ہوئے ہیں جس جماعت کو جیسا موقع ملتا ہے وہ پوری اپوزیشن کو دھوکہ دینے میں کسی شرم کو خاطر میں لانا موقع کا زیاں سمجھتی ہے۔ ایک مبہم سی اُمید ایک خبر کی صداقت سے مشروط ہے کہ میاں نواز شریف انتخابات کے علاوہ کسی اور آپشن پر تیار نہیں جہاں تک صدارتی، قومی حکومت یا دیگر آپشنز کی بات ہے تو اس سے رہا سہا نظام بھی زمین بوس ہونے کا خدشہ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ طویل آمریتوں، طاقت کے مراکز ہاتھ میں رکھنے کی نہ ’سیر‘ ہونے والی ہوس اور سیاستدانوں کی کرپشن و موقع پرستیوں نے اس ملک کو یہ دن دکھلائے ہیں کہ کوئی متبادل نہیں بلکہ اب تو شاید وہ بھی متبادل نہیں جو خود کو ناگزیر گردانتے ہیں۔

تازہ ترین