• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کا یہ شکوہ اپنی جگہ درست ہے لیکن قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ ماضی اور حال میں بےشمار واقعات، جنگیں، المیے اور قتال ایسے ہیں کہ جن کے پسِ پردہ مسلمان خود اپنی امہ (اگر کوئی ہے) سے نبردآزما اور ایک دوسرے کے کشت و خون کے ذمہ دار ہیں اور اس کی صریح وجہ فقط عقائد کے اختلافات یا مخالفانہ سیاسی معاملات ہیں۔ کوئی پانچ سال ہوئے یمن میں نفرت کا یہ الائو عرب اسپرنگ کی بغاوت کے بعد استحکام لانے والی سیاسی منتقلی کی ناکامی کے بعد بھڑک اُٹھا، یمن میں زیدی شیعہ اقلیت کی حوثی تحریک (انصار اللہ) جو گزشتہ ایک دہائی کے دوران منصور ہادی کی حکومت کیخلاف بغاوت کر چکی تھی لیکن اصل میں اس تنازع کی جڑ مبینہ طور پر دو حکومتوں سعودی عرب اور ایران کی آپسی مخاصمت ہے، ایران پر الزام ہے کہ وہ حوثیوں کی حمایت کر رہا ہے اور سعودی عرب پر یہ الزام ہے کہ وہ حوثی مخالف فورسز کا پشت پناہ ہے، اب سچ کچھ بھی ہو لیکن صورتحال یوں ہے کہ یمن کے 80فیصد شہری بےگھر و بےآسرا ہو چکے، جن کی بقا اور جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے انہیں امداد کی ضرورت ہے، 24ملین افراد کو فوری خوراک و شیلٹر کی ضرورت ہے، پانچ سال میں ایک لاکھ سے زیادہ تو صرف بچے ہی موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں اسہال اور ہیضے کے 13,7000کیسز ہو چکے، 20لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں ، طبی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ گولہ بارود کی بو اور جنگ کی تباہ کاریاں مسلسل جاری ہیں۔ اسلامی دنیا بھی مسلسل اور شرمناک حد تک لاتعلق اور خاموش ہے، کیا ’’اسلام کے قلعہ‘‘ پاکستان میں بھی کسی نے کبھی یمن کی صورتحال پر کوئی پروگرام یا رپورٹ ملاحظہ کی ہے ؟ یہی یمن کا المیہ بھی ہے اور یمنی مسلمانوں کا نوحہ بھی۔

سعودی عرب جو اس لڑائی میں ایک فریق بھی ہے سب سے زیادہ یمنی عوام کی مالی مدد کر رہا ہے، اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے بھی گرائونڈ پر رہ کر اس عظیم انسانی المیے سے نبردآزما ہونے اور یمنی عوام کیلئے امدادی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ برطانیہ میں قائم وہ واحد این جی او ہے جو یمن میں ہر ممکن امدادی سرگرمیاں کر رہی ہے اگلے روز چیئرمین ’’اے ایم ڈبلیو ٹی‘‘ عبدالرزاق ساجد ایک ورچوئل میڈیا کانفرنس میں بتا رہے تھے کہ ہماری تنظیم اقوامِ متحدہ کے طے کردہ اصول و ضوابط اور ہدایات کے مطابق اپنے مسلمان بھائی بہنوں کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے اور انہیں کھانے پینے کی بنیادی اشیا پہنچا اور شیلٹر فراہم کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یمن میں ہماری امدادی ٹیموں کے فراہم کردہ حالات اور اعداد و شمار بھی دردناک اور چشم کشا ہیں کہ خوراک کی کمی کی شکار انسانوں کی ایک بڑی مہاجر آبادی یا بےگھر افراد کو اب کورونا وائرس کی وبا کا بھی سامنا ہے اور اقوامِ متحدہ کے تازہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ اگر ہمیں آئندہ چند ہفتوں میں کم از کم ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم نہ ملی تو اس کے تباہ کن اثرات ہوں گے۔

اقوامِ متحدہ کی طرف سے یمن میں امدادی کارروائیوں کے سربراہ مارک لولاک بھی اپنے ایک اخباری انٹرویو میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ گزشتہ سال اقوامِ متحدہ کے انسانی فلاحی ادارے کو یمن کیلئے 3.2ارب ڈالر موصول ہوئے تھے لیکن 2020کے پہلے چھ مہینے میں صرف 474ملین ڈالر ہی ملے ہیں جبکہ ہمیں صرف کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ہی 180ملین ڈالر درکار ہیں، سعودی عرب نے یقین دلایا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے 500ملین ڈالر فراہم کرے گا۔ ویسے بھی سعودی عرب وہ واحد ملک ہے جو یمن کے موجودہ پانچ سالہ بحران میں اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے ابھی جون میں بھی ریاض میں یمن کیلئے آن لائن امدادی کانفرنس جس میں 66ممالک نے حصہ لیا اور 1.35 ارب ڈالر اکٹھے کئے گئے یہ رقم اقوامِ متحدہ کی تنظیموں اور ایجنسیوں کے ذریعہ خرچ کی جائے گی جبکہ سعودی عرب 2.4ارب ڈالر جمع کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے باوجود سعودی عرب یمن کے بجلی گھر چلانے کیلئے 60ملین ڈالر ماہانہ پٹرول مفت فراہم کرتا ہے اور یمن کی معیشت بہتر بنانے کیلئے بھی سعودی عرب نے تین ارب ڈالر یمن کے سینٹرل بینک میں جمع کروائے ہیں۔ مارک لولاک کے مطابق سعودی عرب ابھی تک 17ارب ڈالر کی امداد یمن کو فراہم کر چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مغربی دنیا ہو، اقوامِ متحدہ ہو، سعودی عرب، ایران یا کوئی دوسرا ملک یہ المیہ پیدا ہی کیوں ہونے دیتے ہیں اور پھر کھرب ہا ڈالر انسانی ہمدردی اور امداد کی صورت انہیں مہیا کرتے ہیں۔ کیا کروڑوں انسانی جانوں کے خون کی یہ قیمت ہوتی ہے؟ کیا اس قسم کے انسانی المیے پیدا کرنے والے لاعلم ہوتے ہیں کہ جنگیں موت قحط اور عدم استحکا م لاتی ہیں، ذکرکئے گئے جو دوممالک اپنے دیگر حلیفوں کے ساتھ مل کر اس آگ کو بھڑکانے کا سبب بن رہے ہیں، یہ اپنا ہاتھ پرائے ملک میں دخل اندازی سے اٹھا کیوں نہیں لیتے، کیوں یمنی عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود نہیں کرنے دیتے؟ یہ تو یونہی ہے کہ مارنے والے بھی خود پھر بچانے کا کریڈٹ لینے کے خواہشمند بھی خود!! لیکن اس بات میں دورائے نہیں ہیں کہ یمن کا بھیانک بحران شدت اختیار کر چکا ہے دنیا بھر کے اسلامی ملک ہوں یا دوسری مہذب دنیا سب کو یکجا اور یک آواز ہو کر یمنی عوام کی ہر ممکن مدد بھی کرنی چاہئے اور ان کیلئے آواز بھی اٹھانی چاہئے تاکہ جلد یہ جدال و قتال اپنے انجام کو پہنچے۔

تازہ ترین