• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین کو جو بعض خامیوں اور تکنیکی نقائص کے باعث عمومی طور پر منتقمانہ تصور کئے جارہے ہیں، منصفانہ بنانے کے لئے حکومت اپوزیشن مذاکرات کا آغاز ایک دانشمندانہ اقدام ،ملک کے سیاسی و معاشی استحکام کے لئے قوم کے بہترین مفاد اور وقت کا ناگزیر تقاضا ہیں، اس مقصد کے لئے ایک 24رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس نے پیر کو اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ کمیٹی میں تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندے شامل ہیں جس سے یہ توقع عبث نہ ہو گی کہ وہ اپنی اجتماعی دانش سے ملک کے احتساب نظام کو موجودہ قوانین میں ضروری ردوبدل کے ذریعے ایسا صاف و شفاف، عدل و انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور بامقصد بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جو حکومت اپوزیشن اور ریاست کے تمام دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے لئے یکساں طور پر قابلِ قبول اور عوام کے مکمل اعتماد کا آئینہ دار ہوگا۔ کمیٹی کے سربراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہیں جنہوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ حکومتی ٹیم نے نیب قوانین سے متعلق اپنی تجاویز اپوزیشن کو بھیج دی ہیں۔ اب اپوزیشن ارکان اپنی تجاویز سے سرکاری ٹیم کو آگاہ کریں گے تاکہ دونوں کے نقطہ نظر میں جو فرق ہے اسے دور کیا جا سکے۔ اس حوالے سے شاہ محمود قریشی پہلے ہی اپوزیشن کے بعض ارکان سے رابطہ کر چکے ہیں۔ نیب بل پارلیمانی کمیٹی کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے جس پر اتفاق رائے درحقیقت قومی مسائل پر حکومت اپوزیشن ہم آہنگی کو ممکن بنا سکتا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی میں نیب بل کے علاوہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) بل اور این ایف سی ایوارڈ کے معاملات بھی زیر غور آئیں گے جو سنجیدہ افہام و تفہیم کے متقاضی ہیں، ایف اے ٹی ایف بل کا مقصد ملک کو بنیادی طور پر دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کے بےبنیاد الزام سے بچانا اور ایف اے ٹی ایف کے ادارے کی گرے لسٹ سے نکلوا کر وائٹ لسٹ میں شامل کرانا ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ بین الاقوامی اداروں کی نظروں میں ہمارا مالیاتی نظام شفاف اور منی لانڈرنگ وغیرہ سے پاک قرار پائے گا اور پاکستان کے خلاف عالمی برادری کے بائیکاٹ کا خطرہ ٹل جائے گا تاہم یہ معاملہ ایف اے ٹی ایف اجلاس سے پہلے حل کرنا ہوگا۔ پارلیمانی کمیٹی ایک اور اہم معاملے پر بھی فیصلہ دے گی جو این ایف سی ایوارڈ سے متعلق ہے یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے اس کا مقصد غیرملکی قرضوں اور دفاعی اخراجات کا بوجھ صوبوں پر بھی ڈالنا ہے جس کے لئے 18ویں آئینی ترمیم میں بعض تبدیلیاں درکا ہوں گی جس کے خلاف اپوزیشن پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے مشترکہ دوست اس معاملے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے کے لئے سرگرمی سے کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کوششوں کی کامیابی کے لئے نیب قوانین میں ترمیم پر اتفاق ضروری ہے۔ نیب قوانین، ایف اے ٹی ایف اور این ایف سی ایوارڈ کے معاملات پر ایک جامع پیکج ڈیل سے ملک کے سیاسی و معاشی بحران کا حل نکل سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سمیت دو اہم شخصیات ملک کو درپیش مسا ئل و مشکلات سے نمٹنے پر غور کر رہی ہیں جنہوں نے حکومت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اس عمل میں دوسرے اسٹیک ہولڈرز بھی شریک ہیں۔ اس پس مناظر میں یہ امر خوش آئند ہے کہ پہلی بار ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو اہم قومی معاملات پر حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے قریب لاکر مشترکہ قانون سازی کی راہ ہموار کرے گی۔ حکومت اور اپوزیشن ریاست کی گاڑی کے دو پہیئے ہیں قومی مسائل پر ان کا ایک دوسرے ساتھ مل کر چلنا ناگزیر ہے۔ توقع ہے کہ حکومت اپوزیشن مذاکرات نتیجہ خیز ہونگے اور موجودہ سیاسی رسہ کشی اور بحرانی کیفیت کا خاتمہ ہوگا۔

تازہ ترین