• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ضرور ت تو ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ خصوصاً ضرورت ِرشتہ کی اہمیت سے تو انکار ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شریف آدمی ضرورت یا ہمت نہ بھی ہو، ضرورت ِ رشتہ کا قائل ضرور ہوتا ہے بلکہ بہت سے شرفا تو اخبار کی ہیڈلائن بعد میں پڑھتے ہیں ضرورت ِ رشتہ کے اشتہار پہلے ڈھونڈتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ رشتے توڑنے کی بجائے رشتے جوڑنے والی باتیں زیادہ بہتر ہیں۔ ایک بزرگوار کو میں جانتا ہوں جو روزانہ صبح اخبار پھیلاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ موٹے شیشوں والی عینک ناک پرجماتے ہیں اوربڑی دلجمعی کے ساتھ اشتہارات کامطالعہ کرتے ہیں۔ میں نے ایک دن کہا بزرگوار! آپ یہ اشتہارات اتنی رغبت کے ساتھ کیوں پڑھتے ہیں؟ بولے عزیزم! ٓپ نے بہت احمقانہ سوال پوچھا ہے۔ میں نے عرض کیا وہ کیسے ؟ کہنے لگے آپ سیاستدان ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا پھر سیاسی خبریں کیوں پڑھتے ہیں؟ میں لاجواب ہو گیا پھر انہوں نے پوچھا آپ کھلاڑی ہیں؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے سوال دہرایاکہ پھر کھیلوں کی خبریں کیوں پڑھتے ہیں؟ ان کی اس بات سے میں نے اندازہ لگایا کہ اگرچہ وہ پریکٹسنگ ”کھلاڑی“ نہیں لیکن انہیں کھیلوں سے دلچسپی ضرورہے۔ دوسرے لفظوں میں انہیں رشتے کی ضرورت نہیں یاامید نہیں لیکن ضرورت ِرشتہ کے اشتہارپڑھنا ان کی اکیڈمک ضرورت ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ ایک دن وہ اس میں سے اکیڈمک والی بات سے کہیں انکار ہی نہ کردیں۔
”ضرورت رشتہ“ کے اشتہار صرف بعض بزرگوں ہی میں مقبول نہیں بلکہ ان اشتہاروں کا حلقہ ٴ مطالعہ بیروزگار نوجوانوں تک پھیلا ہوا ہے بلکہ ان دنوں تو بیشتر نوجوان اخباروں میں نوکریوں کے اشتہارات دیکھنے کی بجائے رشتوں کے اشتہار دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبے میں ”اصلی تے وڈّی“ نوکری وزرائے اعلیٰ اور مرکزمیں وزیراعظم نے دیناہوتی ہے اوریوں اس کے حصول کے لئے پاکستان کا شہری ہونا کافی نہیں بلکہ حکمرانوں تک رسائی ضروری ہے۔ اس کے برعکس میرج بیورو والے شادی کے جو اشتہارات اخبار میں چھپواتے ہیں ان تک رسائی ڈاک کے ایک لفافے یارجسٹریشن فیس کی ادائیگی سے ممکن ہو جاتی ہے اور ہینگ پھٹکڑی لگے بغیر رنگ بھی چوکھا آتا ہے مثلاً بیروزگار نوجوانوں کے لئے آج ہی کے اخبار میں تین بہترین ”نوکریوں“ کے اشتہارات شائع ہوئے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں!
”بزنس مین کی 23 سالہ خوبصورت کنواری دونوں کانوں میں پیدائشی نقص لڑکی کے نام کوٹھی، لڑکے کو کاروبار کے لئے نقد پچاس لاکھ کی رقم، شریف شہری دیہاتی کنوارے رنڈوے دوسری شادی والے فوری لکھیں“۔
”کروڑ پتی زمیندار کی 25سالہ بیٹی خاندانی ناچاقی کی وجہ سے رخصتی سے قبل طلاق، لڑکی کے نام چھ مربعہ اراضی فیکٹری و کوٹھی لڑکے کو کاروبارکے لئے ساٹھ لاکھ روپے دیں گے۔ رشتہ فوری طے“۔
”فیکٹری اونر کی 27 سالہ بیٹی نظر معمولی کمزور لڑکی کے نام بنگلہ گاڑی لڑکے کو کاروبار کیلئے 70لاکھ روپے دیں گے“ اب آپ ہی بتائیں بیروزگار، کنواروں، رنڈووں اور دوسری شادی کے ”مستحق“ افراد کیلئے بہترین ازدواجی زندگی نہ سہی خوشحال زندگی گزارنے کے اتنے سنہری مواقع ”دو ٹکیہ کی نوکری“ میں کہاں دستیاب ہوسکتے ہیں؟ اگرچہ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ میرج بیورو والے سنہری خواب دیکھنے والوں کو یہ سبز باغ محض رجسٹریشن فیس کے نام پر لاکھوں روپے بٹورنے کے لئے دکھاتے ہیں کہ آخر وہ بھی تو خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
ویسے جن اشتہاروں کا ذکر میں نے اوپر کی سطور میں کیا وہ ضرورت ِرشتہ کے کم اورسرمایہ کاری کے اشتہارات زیادہ نظر آتے ہیں۔ ایک ”پارٹی“ پچاس لاکھ روپے انویسٹ کرنے پر تیارہے۔ دوسری ”پارٹی“ ساٹھ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی پیش کش کررہی ہے اورتیسری ”پارٹی“ نے 70لاکھ کی ”بولی“ لگا دی ہے۔ ان سب کے ساتھ زمینیں اورفیکٹریاں علیحدہ ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک جاپانی صنعتکار نے پاکستان کے حالات کو سرمایہ کاری کے لئے غیرموزوں قرار دیا تھا اس نے غالباً یہ اشتہار نہیں دیکھے تھے، جن میں سرمایہ کاری کے لئے سرے سے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی بلکہ رنڈوے دوسری شادی کے خواہشمند شہری دیہاتی سب کو ایک نظر سے دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح ان اشتہاروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک دوشیزہ کی نظر کمزور ہے، دوسری بہری ہے، تیسری مطلقہ ہے تاہم جنہیں شادی کے لئے راغب کیا جارہاہے، ان کی کسی ”کمزوری“ کو درخواست دینے کے لئے نااہلی کے زمرے میں نہیں رکھاگیا۔ گویا درخواست دہندہ کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کی دو آنکھیں ہوں، دو کان ہوں، دو بازو ہوں، دو ٹانگیں ہوں اورایک ناک ہو بلکہ سچ پوچھیں تو ہمیں لگتا ہے کہ درخواست دہندہ کی ”ناک“کا ہونا اس کیلئے ڈس کوالی فکیشن ہے۔ یوں ضرورت ِ رشتہ کے یہ اشتہارات ہمیں ضرورت ِ رشتہ کے اشتہارات نہیں بلکہ اس مہم کا حصہ لگتے ہیں جوقوم کو بے غیرت بنانے کے لئے چلائی جارہی ہے اور جس کے نتیجے میں نہایت مضبوط رشتے نہایت آسانی سے ٹوٹ رہے ہیں۔ خدا جانے رشتوں کوجوڑنے والے ”ضرورت ِ رشتہ“ کے ”اشتہارات“ کب شائع ہوں گے؟
تازہ ترین