• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا کی بایوٹیک کمپنی ’موڈرنا‘ کی تیار کردہ کورونا وائرس کی ویکسین اپنی آزمائش کے تیسرے مرحلے میں پہنچ گئی،  اس ویکسین نے تمام رضاکاروں میں مدافعتی نظام کو متحرک کر دیا ہے جس سے اس کی کامیابی کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔

اس ویکسین کی تیسری اور وسیع پیمانے کی آزمائش شروع کی جاچکی ہے جس میں تسلی بخش نتائج ملنے کی صورت میں نگراں انتظامیہ فیصلہ کرے گی کہ اسے کب عوام کو فراہم کیا جا سکتا ہے۔

کمپنی کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کے تیسرے مرحلے کی آزمائش میں تقریباً 30 ہزار افراد شریک ہورہے ہیں۔

ماہرین نے اس ویکسین کی حتمی آزمائش کیلئے امریکا کے 87 مقامات پر موجود 30 ہزار افراد کو شامل کیا اور ان میں وہ لوگ شامل ہوئے جو زیادہ خطرے والے علاقوں یا حالات میں رہتے ہیں۔

ویکسین کی آزمائش میں شامل 30 ہزار لوگوں کو 100 مائیکروگرام کی ویکسین کی دو خوراکیں چار ہفتوں کے وقفے سے دی جائیں گی۔

یہ امریکا میں پہلی ویکسین ہے جس کی تیسری آزمائش کی جارہی ہے۔ موڈرنا نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو کمپنی ہر سال ویکسین کی 50 کروڑ خوراکیں فراہم کرنے کے قابل ہو گی اور 2021 سے یہ تعداد ایک ارب بھی ہو سکتی ہے۔

امریکی کمپنی موڈرنا کی جانب سے تیارہ کردہ کورونا ویکسین کے پہلے اور دوسرے آزمائشی مرحلے میں نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں۔

امید ظاہر کی جارہی ہے کہ رواں سال کے آخر تک یہ ویکسین دستیاب ہوگی کیونکہ یہ اچھی خبر ہے کہ اس ویکسین سے کوئی بھی منفی اثرات سامنے نہیں‌ آئے، یہ وائرس کے خلاف لڑنے کے لیے اہم ویکسین ہے۔

موڈرنا نے اس ویکسین کو نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ کے تعاون سے تیار کیا ہے، یہ پہلی امریکی ویکسین ہے جس کی آزمائش کے نتائج سینئر ماہرین کی نگرانی میں شائع ہوئے ہیں۔

کسی بھی دوا یا ویکسین کے پہلے مرحلے کی آزمائش میں مختصر تعداد میں صحت مند رضاکار شریک ہوتے ہیں جس کا مقصد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک محفوظ ہے۔

دوسرے مرحلے میں اسے مختلف عمر اور صحت کے لوگوں پر آزمایا جاتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں جس میں اس کے مؤثر ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

موڈرنا کی ویکسین کے پہلے مرحلے میں 18 سے 55 سال کی عمر کے 45 صحت مند رضاکار شریک ہوئے جنہیں 28 دن کے وقفے سے ایم آر این اے 1237 ویکسین کی دو خوراکیں دی گئیں۔

کچھ افراد سیاٹل اور باقی اٹلانٹا میں اس آزمائش میں شامل ہوئے۔ انہیں تین مختلف مقدار میں ویکسین لگائی گئی۔

ڈاکٹر لیزا جیکسن نے کہا کہ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے مدافعتی نظام کا جس طرح کا ردعمل درکار ہے، اس کے لیے ایک بار ویکسین کافی نہیں ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ رضاکاروں میں معمولی سے درمیانے درجے کے سائیڈ افکیٹس دیکھنے میں آئے اور وہ لوگ زیادہ متاثر ہوئے جنہیں زیادہ مقدار دی گئی۔

تحقیق کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین نے اینٹی باڈیز ردعمل کو بھی جنم دیا۔ اینڈی باڈیز وہ پروٹین ہوتے ہیں جو جسم وائرس سے لڑنے کے لیے پیدا کرتا ہے۔ ان کا درجہ ویسا ہی تھا جیسا کوویڈ 19 سے صحت یاب افراد میں دیکھا جارہا ہے۔

تازہ ترین