• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن وفاقی یا مرکزی اسمبلی کا ہو یا صوبائی اور ریاستی اسمبلی کا اس کی آئینی حیثیت اپنی جگہ اہم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ65سال میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوئے مگر ان میں جعل و فریب اور دھاندلیوں کا عمل دخل رہا ہے۔ اس لئے 2013ء کے الیکشن کو صاف شفاف بنانے پر بڑا زور دیا جا رہا ہے، دوسرے یہ پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد ہو رہے ہیں۔ تیسرے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ساتھ ہو رہے ہیں اس لئے ایسے الیکشن کمشنر کی ضرورت تھی جو خود کسی کرپشن کے الزام سے پاک ہو، غیرجانبدار ہو اور جس پر جملہ سیاسی پارٹیوں کا اتفاق ہو۔ بہرحال ایسا شخص مل گیا اور گاڑی آگے چل پڑی، پانچ سال کی مدت پوری ہوتے ہی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں، حکومتیں مستعفی ہوگئیں اور چھان بین کے بعد وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا چناؤ ہو کر نگراں حکومتیں قائم ہو گئیں۔ ان کا کام نوّے دن کے اندر الیکشن کمیشن کی مدد کر کے صاف و شفاف انتخاب کرانا ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنا کام شروع کر دیا، بوگس اور جعلی ووٹروں کو فہرستوں سے نکالا۔ جائز افراد کے نام ووٹروں کی فہرستوں میں درج کئے اور اس طرح ملک میں کل ووٹروں کی تعداد 8کروڑ 61لاکھ 89ہزار تک پہنچ گئی۔ کراچی جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے وہاں ووٹروں کی تعداد 68لاکھ سے بڑھ کر 71لاکھ ہوگی کمیشن نے نصف حلقوں میں تبدیلیاں بھی کیں جن پر اعتراض ہوتا رہا مگر کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ کمیشن نے بے رحمانہ احتساب پر زور دیا اور ٹیکسوں کے ڈیفالٹرز اور کرپٹ لوگوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کے کچھ ضابطے بھی بنائے اور آئین کی62-63 شقوں پر زور دینے کا عندیہ دیا۔ یہ شقیں اسلام پسند افراد کو ترجیح دینے سے متعلق ہیں چنانچہ بعض افراد نے سہم کر الیکشن سے الگ رہنے کو ترجیح دی، ساتھ ہی نامزدگی کے فارم میں ایک خانہ خالی چھوڑ دیا گیا کہ ووٹر کو اپنے حلقے میں متوقع امیدواروں پر اعتماد نہ ہو تو وہ اس خانے میں نشان لگا سکتا ہے اگر اس خانے میں51فیصد ووٹروں نے نشان لگائے تو اس حلقے کا الیکشن مسترد کر دیا جائے گا اور وہاں دوبارہ الیکشن ہوگا (اگر دوسری مرتبہ نتائج میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تو پھر کیا ہوگا اس پر کمیشن خاموش ہے۔ غالباً کمیشن کو اس سطح تک پہنچنے کی امید نہیں۔ ویسے اس خانے پر اعتراض بھی ہو رہا ہے مگر یہ امیدواروں کے کردار کو ناپنے کا ایک اچھا پیمانہ ہے)۔
ابتدا میں کمیشن نے ان فارموں کی تعداد دس ہزار بتائی جو اس کو وصول ہوئے تھے مگر اس تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور بالآخر یہ 24ہزار 94پر رکی، کمیشن کے ان فارموں کی اسکروٹنی کے لئے ایک ہفتہ تھا۔ جن حلقوں میں چھ سات فارم داخل ہوئے وہاں باریک بینی سے ان کا جائزہ لینا کچھ مشکل نہ تھا مگر سندھ کے بعض حلقوں مثلاً لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد میں فارموں کی تعداد 58، 55 اور 52 تک جا پہنچی۔ وہاں فارموں پر سرسری طور پر بھی نظر ڈالی جا سکتی تھی مثلاً ایک خاتون نے کراچی کے سب سے بڑے پوش علاقے میں اپنے فلیٹ کی قیمت چار لاکھ بتائی۔ حالانکہ کراچی کے پسماندہ ترین علاقے میں بھی دو کمروں کا فلیٹ چار لاکھ میں نہیں ملے گا۔ ریٹرنگ آفیسروں نے 63, 62 کی آڑ میں بڑے تماشے کئے۔ امیدواروں سے دعائے قنوت اور چھٹا کلمہ سنانے کے علاوہ غسل میت کی ترکیب، دوسری شادی کی وجہ، شراب پینے یا سور کھانے کا سوال کرنے کے علاوہ ایک آفیسر نے نقاب پوش خاتون کی عمر پر شک کرتے ہوئے ان سے نقاب اٹھانے کی استدعا کی جو کسی طرح بھی جائز نہیں تھی، ایسے ہی مضحکہ آمیز سوالات کے تحت ان کے فارم مسترد کر دیئے۔ بعد میں لاہور ہائیکورٹ نے ایسے سوالوں سے روک دیا اور جن کے فارم مسترد کئے تھے ان کے فارم کمیشن نے اپیلوں میں بحال کر دیئے۔ بہرحال جو فارم داخل ہوئے تھے ان سے پتہ چلا کہ ان میں دس ہزار کے قریب ٹیکس نادہندگان ہیں۔ ان پر ایف بی آر کے اہلکار جھپٹے، مگر جس طرح ان کے اس قسم کے پہلے حملے ناکام ہو چکے تھے یہ حملہ بھی ناکام رہا اور ٹیکس نادہندگی کی بنیاد پر کسی کا فارم مسترد نہیں کیا گیا۔ ٹیلیفون اور بجلی کے نادہندوں میں بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام ہیں کچھ نے اپنی بقیہ رقوم جمع کر کے سرخروئی حاصل کر لی۔ جعلی ڈگریوں کو بعض افراد کو جیل بھیج دیا گیا بعدازاں ان کو نہ صرف رہا کر دیا گیا بلکہ انتخاب لڑنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔
اس وقت تک کی جو رپورٹیں اخباروں میں شائع ہو رہی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی بڑی مچھلی پھنسنے والی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دوچار چھوٹی مچھلیاں پھنس جائیں۔ اس سے ان تمام قاعدوں اور ضابطوں کی تردید ہو جاتی ہے جن کا بڑے دھوم دھڑکے سے اعلان کیا گیا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ 82/80 فیصد وہی پرانے چہرے واپس آجائیں گے،18/17 فی صد بھی نئے چہرے آ گئے تو کمال ہوگا۔ تاوقتیکہ ووٹنگ میں کوئی نیا رجحان تبدیلی نہ کر دے۔ فی الحال تو وہ مثل صادق آتی ہے کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا۔ یہاں تو چوہا بھی نہیں چوہیا نکلی، وہ بھی مردہ، کھیل ختم پیسہ ہضم۔ بات موجودہ سطح پر پہنچنے کے باوجود بعض سیاستدان نعرہ زن ہیں کہ الیکشن وقت مقررہ پر ہوں گے۔
ایک سیاسی لیڈر نے ضرور یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر سیاسی پارٹیاں متفقہ طور پر طے کریں تو الیکشن کو ایک مہینہ آگے بڑھایا جا سکتا ہے مگر اس پر کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں ہوا۔ دوسرے اس تجویز سے 2013-14ء کا بجٹ خطرے میں پڑ جائے گا۔نگراں وزیراعظم نے بہت صحیح بات کی کہ ہمارا کام صرف منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے اگر وہ ملک میں امن و امان قائم کر دیں تو یہ بڑا کارنامہ ہوگا اور تاریخ میں ان کا نام یادگار بن جائے گا۔کاروباری حضرات کو شکایت ہے کہ ابھی تک ملک الیکشن کی کاروباری سرگرمیوں سے محروم ہے، وہ ذرا انتظار کریں19/اپریل کو امیدواروں کی حتمی فہرست شائع ہوتے ہی سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی۔ کیٹرنگ ٹرانسپورٹرز، سائن بورڈ، پوسٹر، ہینڈ بلز اسٹیکرز، سیاسی جھنڈوں کے رنگ کی چوڑیاں، خواتین کے دوپٹوں کے آرڈر ملنے شروع ہو جائیں گے مگر ان سے مخصوص کاروباری طبقے ہی مستفید ہوں گے ملک کی عام معیشت پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا صرف زائد روپیہ گردش میں آ جائے گا اور بعض اشیاء مزید گراں ہو جائیں گی اور یہ سلسلہ 11مئی تک چلتا رہے گا۔ ہمیں صرف یہ دعا کرنی چاہئے کہ11مئی کا دن یا اس سے پہلے کا ہفتہ امن و امان سے گزر جائے اور تمام بڑے سیاستدان اور ان کے خاندان شر و فساد سے محفوظ رہیں۔
تازہ ترین