• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے تین چار لوگوں کی نااہلی کا بڑا دکھ ہوا ہے، چار سید زادے ہیں اور ایک راجہ مہاراجہ ہے۔ اسی المناک کیفیت میں مجھے اپنے پرانے دوست سائیں بودی شاہ کے پاس جانا پڑا۔ سائیں جی کا ”چہرہ“ افسردہ دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے بھی آنکھوں میں آنسوؤں کی برسات بسالی۔ میں نے آہ و زاری کے اسی عالم میں عرض کیا کہ سائیں بودی شاہ جی، آخر سیدوں نے کیا قصور کیا ہے کہ نااہلی کے دریا نے ان کے گھروں کا رخ کرلیا ہے، مجھے تو سب سے زیادہ دکھ چوہدری شفیق کے پیر و مرشد عزت مآب سید پرویز مشرف کا ہے کہ انہوں نے کس شان بے نیازی سے ہجرت کی اور آتے ہی قومی خدمت میں لگ گئے۔ سائیں بودی شاہ بولے ”تم بڑے کھرے انسان ہو، صرف تمہیں نہیں پورے عالم اسلام کو پرویز مشرف کی نااہلی کا دکھ ہے، تمہیں کیا پتہ کہ اس ولیٴ کامل کیلئے عالم اسلام نے کیا کچھ نہیں کیا،خادم حرمین شریفین نے اللہ کے اس نیک بندے کا جذبہ قومی خدمت دیکھ کر کئی پنڈتوں کی زبانوں پر تالے لگوائے تھے، آخری امید چترال تھی“۔ بس چترال کے لفظ کے بعد سائیں بودی شاہ ”تھی“ کا لفظ بھی صحیح طرح ادا نہیں کرسکے کہ انہیں دورہ پڑ گیا، تھوڑی سی حالت سنبھلی تو میں نے موقع غنیمت جان کر عرض کیا کہ سائیں جی! آپ کو پتہ ہے کہ سید پرویز مشرف کے پچھلے چلّے میں دس سال پورے نہیں ہوئے تھے، کچھ عرصہ رہ گیا تھا۔ چلّے کو پورا کرانے کے لئے ہزاروں ”فرشتے“ اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔ پرویز مشرف کیلئے میری اس والہانہ محبت کو دیکھ کر بودی شاہ کا ”چہرہ“ مزید پُرنور ہوگیا اور میں نے بھی نہلے پے دہلا مارا کہ اس روح پرور منظر میں مزید رنگ بھرنے کے لئے ہزار روپے کے دو تین نوٹ اور ایک اصیل مرغا پیش کردیا۔ بس یہ کرنے کی دیر تھی کہ سائیں بودی شاہ کا جلوہ اور جلالی ہوگیا۔ اسی جوش میں کہنے لگے کہ ”کام کے پتّے ہمیشہ تاخیر سے کھیلتے ہو…“۔ میں نے اس جوشیلے اور جلالی ماحول میں بس یہی کہنے میں عافیت سمجھی کہ دیر آید درست آید سائیں جی۔ اب سائیں جی کدھرے چپ کرنے والے تھے، یہ میرا ہی قصور تھا کہ میں عین الیکشن کے ماحول میں اس جلالی سید زادے کے روبرو حاضر ہوا۔ میں نے اجازت چاہی تو پھر بیٹھنے کا اشارہ فرما دیا اور پھر سر ہلاکر ارشاد فرمانے لگے کہ”ہاں! تم نے درست کہا، واقعی پرویز مشرف کا تو پہلا چلّہ بھی پورا نہیں ہوا، دس سالہ چلّے میں سے کچھ وقت رہ گیا تھا، منزل پانے کیلئے اسے چلّہ مکمل کرنا پڑے گا اور وہ یہ چلّہ ضرور کریگا، پورے عالم اسلام نے اسکے چلّے کو شرعی قرار دیا ہے اور اسکے چلّے کی تکمیل کی ضمانت بھی دی ہے۔ اچھا یہ بتاؤ اورکس کس کا دکھ ہوا تمہیں؟“ خواتین و حضرات! ایک اصیل مرغا اور دو تین ہزار پیش کرنے کے بعد میرا ”جھاکا“ اتر چکا تھا، میں نے بتایا کہ مجھے یوسف رضا گیلانی کا بھی افسوس ہوا حالانکہ وہ توگدی والے تھے۔ ظالموں نے ان کا کچھ احترام نہیں کیا، ان کی”قومی خدمت“ کو نہیں دیکھا گیا اور یہ بھی نہیں سوچا کہ گیلانیوں کے پورے خاندان نے ملک کی ”خدمت“کی ہے۔ ادھر کشادہ پیشانی والے، کرشماتی روپ کے حامل سید آصف ہاشمی کو بھی نااہل قرار دے دیا گیا ہے، آخر یہ کیا ہورہا ہے سائیں بودی شاہ جی!، آپ خود اتنے کرنی والے ہیں دیکھیں کہ ظالموں نے سید آصف ہاشمی کی اوقاف کیلئے دن رات کی ”سنہری خدمات“ کو کس برے طریقے سے نظرانداز کیا ہے۔ انہیں عین الیکشن میں مخدوم سید فیصل صالح حیات کے ساتھ یہ کیا مذاق سوجھا کہ وہ نااہل ہیں اور تو اور دیکھیں انہوں نے سید مراد علی شاہ کی بھی مراد پوری نہیں کی، آخر انہوں نے ایک سید کی مراد پوری نہ کرکے کو ن سا بدلا لیا ہے۔ میری باتیں غورسے سننے کے بعد سائیں بودی شاہ نے اپنے دونوں ہاتھ میرے سر پر رکھے اور چلا کر کہنے لگے۔ ”سچ کہتے ہو سچ، سچ کہتے ہو سچ“۔ میں نے دل ہی دل میں بودی شاہ کو”دعائیں“ دیں اور اجازت لی۔
خواتین و حضرات! اس حشر بپا حاضری کے بعد کچھ لکھنے کو دل تو نہیں چاہتا مگر آخر کالم میں کچھ تو لکھنا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں کافی عرصے سے آپ کی خدمت میں عرض کررہا ہوں کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ شروع شروع میں میری یہ بات کچھ لوگوں کو اچھی نہیں لگی، مجھے اس پر حیرت ہوتی تھی کہ حالات کے سچے تجزیئے کو بھی ہمارے دوست نہیں مانتے خیر میرے کچھ دوست اتفاق کرنا شروع ہوگئے ہیں،کچھ آئندہ چند دنوں میں کرلیں گے۔ میں الیکشن نہ ہونے کا واویلا اسلئے کرتا رہا کہ ملک کے سیکورٹی ادارے توخود غیرمحفوظ ہیں وہ ہمیں کیسے محفوظ الیکشن فراہم کرسکتے ہیں۔ بہت پہلے ہی سے ملک کے تین صوبوں کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی وہاں الیکشن کا سوچنا بھی حماقت تھا، رہا پنجاب تو وہاں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں سب سے زیادہ تھیں۔ صرف لاہور ہی کو دیکھ لیں، جہاں یہ وارداتیں حد سے زیادہ ہوئیں، سابق گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے کو اغوا کیا گیا، ایک حاضر سروس جرنیل کے داماد کو اغوا کیا گیا۔ امن وامان کی صورتحال کی تصویر کشی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کیا آپ قذافی اسٹیڈیم کے قریب ہونے والی دہشت گردی بھول گئے، آپ کومناواں کا سینٹر یاد نہیں رہا پھر ایف آئی اے سمیت دیگر حساس اداروں کی عمارات پر ہونے والے حملے یاد نہیں۔ ان حالات کو پیش نظر رکھ کر میں کہتا تھا کہ الیکشن نہیں ہوں گے اور الیکشن اب بھی سوالیہ نشان ہیں۔
ابھی سیاسی پارٹیاں ٹکٹ فائنل نہیں کرپائیں کہ تیس چالیس جانیں الیکشن کی نذر ہوگئی ہیں۔ بڑے سیاسی لیڈر ابھی اپنے گھروں سے نہیں نکلے۔ عمران خان اور نواز شریف نے ایک ایک جلسہ کیا ہے اسی طرح پیپلزپارٹی نے گڑھی خدا بخش میں ایک جلسہ کیاہے۔ آپ خود سوچئے کہ جب الیکشن میں 23دن رہ جائیں، پارٹی ٹکٹ بھی پورے تقسیم نہ ہوسکیں، الیکشن کا ماحول نہ بنے، حیدرآباد اور سوات میں امیدوار ہی قتل ہوجائیں، ن لیگ بلوچستان کے صدر ثناء اللہ زہری کے بھائی، بیٹے اور بھتیجے کو مار دیا جائے، غلام احمد بلور سمیت کئی امیدوار حملوں میں بچ جائیں اور ایسے میں پھر بھی الیکشن کی امید دیوانے کا خواب نہیں تو اور کیا ہے۔ ابھی جب الیکشن مہم زوروں پر ہوگی تو دہشت گرد سیاسی میدان ہلاکر رکھ دینگے۔ پتہ نہیں منظر کیا سے کیا ہوجائے، 24 ہزار امیدواروں کی حفاظت بہت چھوٹا مسئلہ نہیں، بے بس پولیس اور کمزور الیکشن کمیشن کی موجودگی میں الیکشن کا ہوجانا واقعی معجزہ ہوگا۔
تازہ ترین