• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے نیب کے ایک کیس میں احتساب عدالت سے سزا پانے والے محکمہ ٹیلی فون انڈسٹریز کے سابق ڈپٹی جنرل مینجر کی ملازمت پر بحالی کا فیصلہ کالعدم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سزا معطل ہونے سے جرم ختم نہیں ہوتا اور نیب مقدمات میں سزا پانے والا سرکاری افسر اور عوامی عہدیدار مکمل بریت تک اپنے عہدے پر بحال نہیں ہو سکتا۔ اس سرکاری افسر کو من پسند فرم کو ٹھیکہ دینے کے الزام میں پانچ سال قید با مشقت اور 50لاکھ روپے جرمانہ ہوا تھا جس پر اس کے ادارے نے اسے برطرف کر دیا تھا جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس کی اپیل منظور کرتے ہوئے ملازمت پر بحال کر دیا تھا۔ ایک اور کیس میں سپریم کورٹ کے سہ رکنی بینچ نے 19ویں گریڈ کے ایک افسر کی جس نے ایک دن کام کرکے 14لاکھ روپے تنخواہ وصول کر لی تھی، پنشن سے متعلق اپیل مسترد کرتے ہوئے خارج کردی، چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک دن کے کام پر 14لاکھ روپے وصول کرنے سے بڑا ڈاکہ کیا ہوگا؟ (پنشن کی درخواست منظور کر لیں تو) اس کو سو ارب روپے دینا پڑیں گے جس سے حکومت دیوالیہ ہو جائے گی۔ اب کیا پورے پاکستان کا خزانہ دے دیں؟ بین الصوبائی رابطہ کی وزارت کے اس افسر کو 1993میں 19ویں سکیل میں نوکری ملی، 1996میں اسے برطرف کر دیا گیا، کیس عدالتوں میں چلتا رہا۔ 2010میں اسے بحال کر دیا گیا لیکن اس کے اگلے روز اس کی عمر 60برس ہو گئی اور وہ ریٹائر ہو گیا۔ اسے 14لاکھ روپے تنخواہ ملی مگر پنشن نہ مل سکی۔ اس پر وہ عدالت چلا گیا عدالت نے اس کی اپیل مسترد کردی جبکہ فاضل چیف جسٹس نے مذکورہ بالا دلچسپ ریمارکس دیے۔ عدالت عظمیٰ میں سنے گئے ان دو کیسوں سے ملک میں کرپشن کی صورت حال کی سنگینی کا پتا چلتا ہے۔ کرپشن کا سدباب کسی بھی ملک کا نظام چلانے کے لئے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ہر ملک اپنے معروضی حالات کے مطابق اس کے خاتمے کے لئے ادارے قائم کرتا اور قوانین بناتا ہے۔ پاکستان میں بھی جس کا کرپشن میں دنیا کے 180ممالک میں 120واں نمبر ہے، اس لعنت پر قابو پانے کے لئے اینٹی کرپشن کے محکمے سمیت کئی ادارے موجود ہیں۔ سب سے بڑا ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) ہے جس نے بلاشبہ کرپشن کے کئی بڑے اسیکنڈل پکڑے، مجرموں کو سزائیں دلوائیں اور اربوں روپے ریکور کرکے قومی خزانے میں جمع کرائے مگر سیاسی پارٹیاں اس کے طریق کار سے مطمئن نہیں عدلیہ نے بھی اپنے فیصلوں میں اس کے کردار پر سوالات اٹھائے اور تنقید کی۔ اپوزیشن اسے حکومت کے مخالفین کو دبانے کے لئے احتساب کے بجائے انتقام کا ذریعہ قرار دے کر سرے سے ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ حکومت بھی اس کے قوانین میں اصلاح کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ چنانچہ نیب آرڈی ننس اور دیگر قوانین میں ترمیم سے متعلق حکومت اپوزیشن مذاکرات شروع ہو چکے ہیں دونوں میں ترامیم کے مسودوں کا پیرکو تبادلہ ہوا۔ حکومتی ٹیم نے اپوزیشن سے تحریری موقف مانگ لیا جبکہ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف سمیت مختلف قوانین کے حوالے سے حکومتی مسودے پر غور کیلئے مزید وقت مانگا۔ فریقین زیر بحث معاملات پر قانون سازی لئے سنجیدگی سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ دونوں طرف سے مثبت رویے کا اظہار ہے کرپشن ملک کو دیمک کی طرح نقصان پہنچا رہی ہے۔ توقع ہے کہ نیب قوانین کی اصلاح کیلئے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا تاکہ اس ادارے کی ساکھ بحال ہو وہ آئینی تقاضوں اور عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں کرپشن روکنے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکے اور عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ بدعنوان لوگوں کی جیبوں میں جانے سے بچ جائے۔

تازہ ترین