ہماری دو بڑی روایتی پارلیمانی قوتوں پی پی پی اور (ن) لیگ نے 1988-99کے عشرے میں اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کو خوب ’’نیب زدہ‘‘ (قابلِ احتساب) کیا۔ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ کوئی غلط نہیں کیا تھا لیکن فنکاری یہ تھی کہ جتنے یہ نیب زدہ ہوئے اتنا ہی ’’نیب‘‘ کمزور ہوتا گیا۔ یہ اسٹیٹس کو کا حسن تھااور یہ بھی کہ اپنی برائلر حالت میں بھی نیب قائم دائم رہا، حالانکہ برائلر چکن چھ آٹھ ہفتوں کے بعد نہ زیادہ زندہ رہتا ہے نہ خوراک بننے کے قابل لیکن نیب کو قائم رکھنا پڑا۔
اب یہ عیاں ہے کہ احتساب (اصلی والا) جمہوریت، سماجی انصاف کا لازمہ اور مینی جیریل| ایڈمنسٹرٹیو سائنس کے مطابق گڈ گورننس کے آٹھ بنیادی اجزائے ترکیبی میں سے ایک ہے۔ سو اسے ختم کرنے کی نوبت کبھی نہ آئی۔ اکتوبر 99میں ’’بدترین جمہوریت‘‘ کا دوسرا دور بھی ختم ہوا تو ’’نیب‘‘ کے فیملی چیئرمین سیف الرحمٰن کی سرکردگی میں نیب کا بیڑا ہی غرق ہو چکا تھا۔ مشرف کی این آر او زدہ آمریت آئی تو اس نے مضبوط سول بیساکھیوں کے حصول کے لئے نیب کو استعمال کیا۔ تاہم پانامہ لیکس جسے پاکستان میں جنگ، جیو اور دی نیوز نے بریک کیا، اس کے لئے مسیحا ثابت ہوا، جس نے اِس نیم مردہ ادارے میں جان ڈال دی، اس کا وقار اور اعتبار سرگرم اور آزاد ہونے پر بڑھتا گیا۔ تبدیلی حکومت (2018)نے اقتدار سنبھالا تو اس کے پاس تبدیلی کا کوئی قابل قومی پروگرام تھا نہ احتساب پالیسی، سو نیب پر جدھر سے زیادہ پریشر پڑا یہ ادھر جھکنے لگی، یوں اس کا اعتبار اور وقار گرنے لگا۔ قومی اخبارات کے درجنوں اداریوں، میڈیا کے معیاری تنقیدی تجزیوں اور سیاسی ابلاغ میں اس کی نشاندہی بلند درجے پر ہونے لگی۔ رہی سہی کسر ’’وڈیو گیمز‘‘ اور میر شکیل الرحمٰن کی غیرقانون گرفتاری کے شرمناک ڈیزائن نے نکال دی۔ واضح رہے ’’نیب‘‘ سے متعلق دونوں متنازع وڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد ’’نیب زدہ اپوزیشن‘‘ نے متنازع ہوتے ادارے کے خلاف خوب سیاسی کھیل کھیلا۔ بقول میرے عزیز دوست شعیب بن عزیز کہ ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘۔؎
میر شکیل الرحمٰن کی آزادیٔ صحافت جمہوریت اور پیشۂ صحافت کو شدید جھٹکا دینے والے نیب کے (معلوم نہیں نئے وزیر اطلاعات اس کو کتنا سمجھ پائے ہیں) انتہائی بھونڈی ’’گرفتاری ڈیزائن‘‘ سے یاد آیا، گزشتہ شام ’’جیو‘‘ میں سلیم صافی کے ہفتہ وار پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں قومی فروغ ابلاغ عامہ پر وار کرنے والی اس گرفتاری پر پاکستان کے ایک نامی گرامی ’’نیم گمنام ہیرو‘‘ میجر (ر) محمد عامر نے احتجاجی انداز کے ایسے ریمارکس دیے جس سے ناچیز کی ’’آئین نو‘‘ کی سیریز ’’میر شکیل الرحمٰن کے قومی ’’جرائم‘‘ کی گواہی‘‘ کی توثیق و تصدیق ہوئی۔ ’’نیم‘‘ یوں کہ میجر صاحب کی مثالی حب الوطنی اور پیشہ ورانہ مہارت پر مبنی کارناموں سے پاکستان کے عوام الناس نہیں تو ملک کا پڑھا لکھا اخبار بین اور میڈیا الرٹ طبقہ بخوبی واقف اور ان کا معترف ہے۔ ’’جرگہ‘‘ میں میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر اپنے دکھ اور احتجاج میں میجر صاحب نے کہا:
میر شکیل الرحمٰن جیسے لوگوں کو پکڑنا نیب اور پاکستان کے ساتھ ظلم ہے۔ روزنامہ جنگ نے آج حکومت کو بیل آئوٹ کیا ہے، میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ اداروں اور پاکستان کا نقصان ہے، میر شکیل الرحمٰن کے کیس کو ایک عام آدمی بھی درست نہیں مانتا، جنرل باجوہ، جنرل فیض، عمران خان، سلیم شہزاد، جسٹس (ر) جاوید اقبال سب نے اپنی والدہ کی خدمت کی، میر شکیل الرحمٰن کی والدہ بھی 90سال سے زائد عمر کی ہیں، کچھ عرصہ میں ان کے بیٹے اور ایک بیٹی کی موت ہو گئی، وہ کہتی ہیں میرا جو بھی اسپتال گیا وہ واپس نہیں آیا، وہ اسپتال نہیں جانا چاہتیں لیکن میر شکیل کو دیکھنا چاہتی ہیں، کیا میر شکیل الرحمٰن کو یہ حق نہیں کہ جس طرح سب نے اپنی والدہ کی خدمت کی، وہ بھی کریں۔ اِسی پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا جبکہ میزبان سلیم صافی نے بھی کہا کہ میں بھی حلفاً کہتا ہوں کہ میر شکیل الرحمٰن نے کبھی کسی کے حق میں یا خلاف لکھنے کا نہیں کہا۔ سلیم صافی کے سوال کہ ہمارے گروپ نے کسی زمانے میں عمران خان سے توقعات وابستہ کی تھیں، پھر جب دھرنوں کا موقع آیا آفس پر حملہ ہوا، آپ بھی اس دوران کنٹینر پر کھڑے تھے تو کیا کبھی میر شکیل الرحمٰن یا میر ابراہیم کی طرف سے آپ سے کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ آپ عمران خان کو سپورٹ کیوں کر رہے ہیں، جس کے جواب میں حسن نثار نے کہا کہ میں کبھی قسم نہیں کھاتا آپ اگر کہیں تو قسم کھا کر کہہ دیتا ہوں کہ ایک بار اشارتاً بھی نہیں کہا، حلفاً کہتا ہوں کبھی کسی طرح کا منع نہیں کیا، دو تین بار ذاتی ملاقاتیں ہوئیں میر شکیل سے، دو ڈھائی سال پہلے والدہ کا انتقال ہوا اس پر ان سے ملاقات ہوئی، انہوں نے کبھی کچھ نہیں کہا، نہ انہوں نے کبھی شکوہ کیا، نہ منع کیا، نہ ناراضی کا اظہار کیا۔ سلیم صافی نے کہا کہ میں بھی حلفاً کہہ رہا ہوں کہ کبھی میر شکیل الرحمٰن نے اس حوالے سے کہ اس کے حق میں لکھو یا اس کے خلاف لکھو یا یہ کام کرو یا نہ کرو یا کبھی انہوں نے مجھے کوئی ہدایت نہیں دی۔ مجھے اس بات پر اتنا دکھ ہے، آج اتنی ندامت ہے جن پر بس نہیں چلا جو جہاں بیٹھے ہیں بیٹھے ہیں یعنی انہوں نے کچھ اور کیا وہ یاد ہیں، جو لڑائی میں نے اس پلیٹ فارم سے لڑی یہ احسان فراموشی کی ایک قسم ہے اور یاد رکھیں جو آدمی انسان کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا وہ رب کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ احتساب کے حوالے سے بہت سے لوگوں کو اندر کیا لیکن ان سے کیا باہر نکلا، کیا فائدہ ہوا۔
’’آئین نو‘‘ کی سیریز ’’میر شکیل الرحمٰن کے قومی ’’جرائم‘‘ کی گواہی‘‘ میںمیر صاحب کے ان قومی جرائم کا تذکرہ کر رہا ہوں جس میں ناچیزمعاون رہا۔ مزید یہ کہ میں بھی اپنے ہر دو رفقاء کار حسن نثار اور سلیم صافی کی توثیق میں ہر قسم کھانے کو تیار ہوں کہ ’’جنگ‘‘ سے اپنی 37سالہ وابستگی میں ہزاروں کالم لکھ چکا، یوں میں ادارتی صفحے کا سینئر ترین کنٹری بیوٹر ہوں، اس طویل عرصے میں ایک مرتبہ بھی شکیل صاحب نے کسی کے خلاف یا حمایت میں لکھنے کے لئے اشارتاً بھی نہیں کہا، یادداشت پر بہت زور ڈالا تو فقط معروف مرحوم صحافی ضیاء الاسلام انصاری کے انتقال پر اس شام فون کرکے کہا تھا کہ آج ہی کالم لکھ کر دے دیں کہ صبح شائع ہو جائے۔ امر واقع یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ادارہ نہ فرد، دودھ کا دھلا نہیں، سب سے انسانی غلطیاں اور ڈیزاسٹر ہوئے، لیکن بعض افراد کی انا محدود مقاصد اور ذہنی تسکین کے حصول سے (جو کہ بنیادی طور پر انفرادی رویوں کا معاملہ ہے) قومی اداروں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا جبکہ سب ادارے اور ان سے وابستہ افراد پاکستانی ہیں۔ ایسے داخلی Conflictsکے حل اور راہِ راست پر آنے کے لئے ایک Intra-Coflict Resolutionکا ایک آئینیقومی ادارہ بنانا ایک بڑی قومی ضرورت بن گیا ہے۔ اس پر ان شاء اللہ جلد ’’آئین نو‘‘ میں بات ہوگی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)