• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ جمعہ ترکی کی تاریخ میں سنہرے لفظوں میں لکھا جائے گا جب استنبول کی تاریخی ’’آیا صوفیہ‘‘ مسجد میں86 سال بعد نماز جمعہ ادا کی گئی۔

اس دن استنبول میں ایک فیسٹیول کا سا سماں تھا اور یوں لگتا تھا کہ جیسے پورا استنبول نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے شہر کے وسط میں واقع مسجد آیا صوفیہ میں اُمڈ آیا ہے۔ نماز میں شرکت کیلئے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور اُن کی کابینہ کے وزرا بھی موجود تھے۔ نماز کی ادائیگی کیلئے رات سے ہی لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جنہوں نے ترکی کے قومی اور عثمانی پرچم اٹھا رکھے تھے۔

اس موقع پر فضا ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدائوں سے گونجتی رہی۔ ترک صدر نے قوم سے اپیل کی کہ وہ چار چیزیں ساتھ لائیں۔ جائے نماز، ماسک، جذبہ اور باہمی اتحاد۔نماز جمعہ سے قبل انہوں نے اپنی مسحور کن آواز میں قرآن پاک کی تلاوت کی۔

بعد ازاں ترک وزیر برائے مذہبی امور نے سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ کی تلوار ہاتھ میں تھامے نماز جمعہ کا خطبہ دیا اور اس دوران روح پرور مناظر دیکھنے میں آئے جسے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے براہ راست دیکھا۔

اس تاریخی موقع پر اردوان کا کہنا تھا کہ آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ترکی کا تاریخی اور آئینی حق ہے۔ مسجد میں دو ہزار نمازیوں کی گنجائش تھی تاہم مسجد کے اطراف 3 لاکھ سے زائد لوگوں نے نماز جمعہ ادا کی جن کی زبان پر صدر اردوان کیلئے تعریفی کلمات تھے۔ زیادہ اچھا ہوتا کہ اس تاریخی موقع پر ترکی سے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے کم از کم کوئی حکومتی نمائندہ یا وزیر مذہبی امور شریک ہوتا۔

یورپ اور ایشیاکو ملانے والے بحیرہ باسفورس کے یورپی ساحل پر واقع مسجد ’’آیا صوفیہ‘‘ کی عمارت 1500 سالہ پرانی ہے ،جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ گزشتہ سال دنیا بھر سے 37 لاکھ سے زائد غیر ملکی سیاحوں نے آیا صوفیہ کا وزٹ کیا۔ مجھے بھی دو مرتبہ اس تاریخی مقام کا وزٹ کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اور میں یہاں آکر عمارت کی تاریخ اور خوبصورتی کے سحر میں ڈوب گیا۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے آیا صوفیہ کو تاریخی ورثہ قرار دے رکھا تھا جسے دور سے دیکھنے پر مسجد کے خوبصورت گنبد پانی میں تیرتے نظر آتے ہیں۔ یہ عمارت چھٹی صدی عیسوی میں بازنطینی بادشاہ جسٹنین اول کے دور میں تعمیر کی گئی اور تقریباً ایک ہزار سال تک اِسے گرجا گھر کی حیثیت حاصل تھی تاہم 1453ء میں خلافت عثمانیہ دور میں اِسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا لیکن 1934ء میں سیکولر سوچ کے حامل مصطفی کمال اتاترک نے بیرونی دبائو پر اِسے میوزیم میں تبدیل کردیا۔

کچھ سال قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد بنانے کا اعلان کیا تھا جبکہ حال ہی میں ترکی کی ایک اعلیٰ عدلیہ نے ’’آیا صوفیہ‘‘ کی میوزیم کی حیثیت ختم کرتے ہوئے 1934ء میں عمارت کو میوزیم میں تبدیل کرنے کے فیصلے کو غلط قرار دیا جس کے بعد ترک صدر طیب اردوان نے آیا صوفیہ میوزیم کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کے احکامات جاری کئے اور اس طرح گزشتہ جمعہ کو 86 سال بعد آیا صوفیہ میں نماز جمعہ ادا کی گئی جس کے بعد مسجد آیا صوفیہ کو پنچ وقتہ نماز کیلئے کھول دیا گیا۔

ترکی اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے اردوان کے اس فیصلے کو سراہا لیکن مغرب کو مسلمانوں کی یہ خوشی ایک آنکھ نہ بھائی۔ امریکہ، یورپی یونین، فرانس، روس، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو اور پوپ جان پال نے آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے پر افسوس اور مذمت کا اظہار کیا جبکہ ترکی کے پڑوسی ملک یونان میں آیا صوفیہ عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کے خلاف مظاہرے کئے گئے اور نماز جمعہ کے موقع پر یونان نے اپنا قومی پرچم سرنگوں کرکے سوگ منایا۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ آج یہ تمام مغربی ممالک اور عیسائیوں کے روحانی پیشوا جو ایک میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے پر اتنا واویلا کررہے ہیں، یہ اُس وقت کہاں تھے جب نریندر مودی کے دور میں بابری مسجد کو شہید کردیا گیا تھا اور بھارتی عدلیہ نے مسجد کی جگہ مندر بنانے کے احکامات جاری کئے۔ اِسی طرح اسپین میں مسلمانوں کے دور کی درجنوں مساجد کو چرچوں میں تبدیل کردیا گیا۔

میں نے خود اسپین کے شہر وینسیا میں کچھ ایسے چرچ دیکھے ہیں جنہیں مسجد کے اوپر تعمیر کیا گیا ہے۔ آج جب آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کیا گیا اور وہاں نماز ادا کی گئی تو مغربی ممالک افسوس کا اظہار کررہے ہیں اور وہاں سوگ کا سماں ہے۔

ترکی نیٹو کا اہم رکن ملک ہے اور کچھ سال قبل یہ سمجھا جارہا تھا کہ مستقبل قریب میں ترکی، یورپی یونین کا حصہ بننے جارہا ہے مگر طیب اردوان کے صدر بننے کے بعد ترکی کے 70 فیصد عوام نے ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین کا حصہ بننے کو مسترد کردیا ۔

جس سے یورپ کو یہ سخت پیغام ملا کہ ’’ترکی آزاد اور خود مختار ملک ہے اور اسے یورپی یونین کی ضرورت نہیں۔‘‘ ترکی کے صدر اردوان کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ ’’آیا صوفیہ میں پنچ وقتہ نماز کے بعد عمارت کی میوزیم کی حیثیت برقرار رہے گی اور میوزیم کا وزٹ کرنے والے سیاحوں سے کوئی داخلہ فیس نہیں لی جائے گی جو کہ ایک اچھا قدم ہے لیکن مغربی ممالک کا اِسے سراہنے کے بجائے مخالفت کرنا اُن کی منافقت اور اسلام دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔

ترکی کے صدر اردوان جو مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتیوں پر عالمی سطح پر مؤثر آواز اٹھاتے رہے ہیں، کے اس اعلان نے بھی اسلام دشمنوں کی نیندیں اڑادی ہیں کہ ’’مسجد آیا صوفیہ کے بعد اُن کی اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے جسے ہم آزاد کرائیں گے۔‘‘ آج امت مسلمہ کو ترک صدر طیب اردوان جیسے نڈر اور بہادر لیڈر کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین