• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابتداء وحشت کلکتوی کے اس شعر سے کہ
زندگی کی دوسری کروٹ تھی موت
زندگی کروٹ بدل کر رہ گئی
اس جہان فانی میں نہ پیدائش کوئی کرامت اور نہ موت کوئی انہونی بات ہے کہ جو پیدا ہوا ہے اپنی مقررہ مدت پوری کر کے واپس لوٹ جائے گا۔ لیکن خوش بخت ہیں وہ ”عظیم لوگ “ جب بچھڑتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس سے ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے اور آج کے سلگتے معاشرے میں جب اخلاقی اقدار، رواداری، مشرقی رکھ رکھاؤ اور آداب دم توڑ رہے ہیں ایسے میں صاحبزادہ صاحب کا انتقال ایک سانحہ سے کم نہیں۔ ابھی وہ ”بزرگی کی منزل“ میں داخل نہیں ہوئے تھے لیکن علم و تجربہ میں سیاسی و دینی قائد بن گئے تھے اور اہلسنّت کی متعدد جماعتوں پر مشتمل سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین تھے۔ ان کی پارٹی کی جانب سے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور چند روز میں امیدواروں کا اعلان بھی ہونے والا تھا۔ مرحوم صاحبزادہ صاحب کی جانب سے دینی جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تجویز پیش کی گئی تھی اور اس حوالے سے ایک سربراہی اجلاس سنی تحریک کے سربراہ مولانا ثروت قادری کی دعوت پر ہونے والا تھا تاکہ ملک میں نظام و مقام مصطفی کی ایک بار پھر تحریک چلائی جا سکے۔ اگرچہ صاحبزادہ صاحب خاصے عرصے سے علیل تھے لیکن سرطان کا مرض اچانک ابھر کر باہر آ گیا اور ان کی جدائی کا بہانہ بن گیا۔
صاحبزادہ فضل کریم اہلسنّت کی انتہائی ممتاز اور قابل احترام شخصیت شیخ الحدیث مولانا سردار احمد کے صاحبزادے تھے اور شارح بخاری علامہ غلام رسول رضوی ان کے بہنوئی اور استاد تھے۔ اور دونوں شخصیات کا شمار جید، ممتاز علمائے اہلسنّت میں ہوتا ہے جن کے ہزاروں مرید اور عقیدت مند پاکستان ہی نہیں بیرون ملک میں بھی ہیں۔ صاحبزادہ فضل کریم نے سیاست میں بھرپور حصہ لیا ۔ دو بار قومی اسمبلی، دو بار صوبائی اسمبلی کے رکن رہے۔ پنجاب میں وزیر اوقاف و مذہبی امور بھی رہے۔ ان کے دور میں صوبہ بھر میں مزارات کی دیکھ بھال، آرائش و تزئین پر خصوصی توجہ دی گئی۔ قرآن بورڈ قائم کیا گیا جس کے وہ پہلے سربراہ تھے تاہم ان کی سیاست کا مرکز و محور ملک میں قرآن و سنت کے مطابق نظام حکومت قائم کرنا تھا۔ وہ اور ان کے بزرگوں کا تعلق جمعیت علماء پاکستان سے تھا اور ان کے والد گرامی جمعیت کے بانی ارکان میں سے تھے۔ میاں نواز دور میں جمعیت میں بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوئے اور جمعیت دو گروپوں میں تقسیم ہو گئی۔
اس وقت صاحبزادہ فضل کریم نے اس دھڑے بندی کی مخالفت کی اور جمعیت کے سربراہ بنائے گئے۔ میاں محمد شریف مرحوم مجاہد ملت مولانا عبدالستار نیازی کے عقیدت مندوں میں شامل تھے اور اس حوالے سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ان کا احترام کرتے تھے۔ مولانا نیازی بھی ان دونوں بھائیوں سے شفقت فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار شہباز میاں نے صاحبزادہ فضل کریم اور مولانا نیازی کے درمیان صلح صفائی کی کوشش بھی کی۔ مولانا نیازی سے اس ملاقات میں میں بھی موجود تھا۔ صاحبزادہ صاحب کے ساتھ میاں برادران کا قریبی تعلق تھا یہی وجہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیتے رہے۔
میرا صاحبزادہ فضل کریم سے ایک عمر کا رشتہ تھا۔ وہ میرا بڑا ادب اور احترام کرتے تھے ان کی موت سے نہ صرف میں بلکہ ساری قوم ایک محب وطن ، اسلام دوست اور مخلص سیاسی و دینی رہنما سے محروم ہو گئی ہے۔ اس وقت جب انتخابی سرگرمیاں تقریباً شروع ہو چکی ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر انتخابی الزامات کے پتھر پھینکے جا رہے ہیں دوسری طرف دہشت گرد ہیں جو دھماکے کر کے الیکشن کی راہ میں جبراً رکاوٹیں کھڑی کرنے کے درپے ہیں، ایسے حالات میں صاحبزادہ مرحوم جیسی شخصیت کی ہمیں شدت سے کمی محسوس ہو گی جو آپس میں مفاہمت اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے تھے۔ وہ صاحبزادہ فضل کریم ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ 130 علماء کرام کی جانب سے فتویٰ بھی جاری کیا جبکہ کچھ ایسے بھی تھے جو دہشت گردی کے ذمہ داروں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔ صاحبزادہ صاحب کے ایک ساتھی ممتاز عالم دین ڈاکٹر سرفراز نعیمی اس دہشت گردی کا شکار ہوئے اور شہید کر دیئے گئے۔ اگرچہ صاحبزادہ صاحب ہم سے رخصت ہو گئے ہیں لیکن ان کا مشن جاری و ساری رہے گا۔ کیا ہی بہتر ہو ان کے بھانجے جمعیت مشائخ کے سربراہ پیر فضل حق آگے بڑھ کر صاحبزادہ صاحب کے صاحبزادوں سے معاونت کریں اور ان کے مشن کی تکمیل کے لئے ان کی رہنمائی فرمائیں۔
تازہ ترین