• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کی طرف سے قومی احتساب بیورو (نیب) سے متعلق قانون میں اپوزیشن کی 35ترامیم ماننے سے انکار اور اپوزیشن کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی کےبائیکاٹ کے بعد صورتحال ان معنوں میں گمبھیر نظر آرہی ہے کہ پاکستان پر فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی شرائط کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ان شرائط پر بروقت عملدرآمد ہونے یا نہ ہونے پر اس بات کا انحصار ہے کہ اسلام آباد دہشت گردوں کے مالی معاونت اور منی لانڈرنگ سمیت حساس معاملات پر نظر رکھنے والے مذکورہ بین الاقوامی ادارے کی جس گرے لسٹ میں کافی عرصے سے شامل ہے اسی میں رہے گا یا اس سے باہر آنے کے قابل ہو چکا ہے یا بلیک لسٹ میں شامل ہوکر غیرمعمولی پابندیوں کا سامنا کرے گا۔ بھارت، جو پاکستان دشمنی میں ہر حد سے گزرنے کے لئے ہروقت تیار رہتا ہے اپنی لابی کے ذریعے پاکستان کو شرائط میں الجھانے کی ہرممکن کوشش کرچکا ہے تاہم یہ حقیقت بھی ناقابلِ تردید ہے کہ فیٹف کے ماضی کے اجلاسوں میں اس بات کو سراہا گیا کہ اسلام آباد نے ان شرائط پر عملدرآمد کے ضمن میں اندرون ملک قانون سازی اور دیگر اقدامات کی صورت میں قابلِ قدر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسکے باوجود بھارت کی پوری کوشش ہے کہ FATFسے پاکستان کو کلیئرنس نہ ملے۔ اس باب میں اس نے تمام ممکنہ سفارتی حربے استعمال کئے ہیں۔ جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا دوست ممالک سے رابطہ ہے اور موجودہ حالات اسلام آباد کے حق میں ہیں۔ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی یہ نہیں چاہے گی کہ دشمن قوتیں وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کی جو کوششیں برسوں سے کررہی ہیں انہیں کامیاب ہونے دیا جائے مگر بہت سے امور میں برسراقتدار حکومت سے تفصیلات طلب کرنا بھی جمہوری روایات کا حصہ ہے۔ وطن عزیز میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ایوانوں میں پارٹیوں کی عددی کیفیت سمیت بعض امور اور اپنے اپنے منشوروں یا مشکلات کے حوالے سے اختیار کئے گئے رویوں کےباعث کئی قوانین کو پارلیمان سے منظور کرانے میں دشواری کا سامنا ہے جس کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی تھی مگر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے تعلق رکھنے والے قوانین اور احتساب قوانین پر فریقین کے اپنے اپنے موقف پر سختی سے قائم رہنے کے باعث بظاہر لاینحل مسائل کا سامنا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کر چکے ہیں کہ عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس بلاکر اِن ہائوس حکومتی تبدیلی لانے یا وسط مدتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دوسری جانب قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غورکے لئے سات بل پیش کئے ہیں جو پہلے قومی اسمبلی سے منظور ہوچکے ہیں مگر ایوان بالا سے منظور نہیں ہو سکے تھے۔ تیسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو FATFکے پلان پر عملدرآمد کی رپورٹ 6اگست کو ارسال کرنا ہے جس پر ستمبر کی میوچل ایلی ویشن میٹنگ کے اجلاس میں غور کرکے ستمبر کے آخر میں رپورٹ پیش کی جائے گی۔ اس لئے مطلوبہ قانون سازی میں تاخیر کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔ صورتحال یہ ہے کہ احتساب کی ضرورت سے اپوزیشن سمیت کسی کو انکار نہیں جبکہ حکومتی ارکان بھی نیب قانون میں بعض اصلاحات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح ’’فیٹف‘‘ سے تعلق رکھنے والے قوانین ملکی مستقبل کے حوالے سے اہم ہیں اسلئے توقع کی جانی چاہئے کہ فریقین قومی مفاد سامنے رکھتے ہوئے دستیاب محدود وقت میں ہی کوئی راہ عمل نکال لیں گے۔

تازہ ترین