• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک درخواست وزیر اعظم سے، ایک درخواست آرمی چیف سے

بچپن سے ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں مری میں اپنے گائوں علیوٹ جانا ہوتا۔ یہ سلسلہ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد بھی جاری رہا لیکن ماضی کے برعکس گائوں میں رہنے کے لئے وقت کم ہو گیا۔ کبھی ایک دو ہفتوں کے لئے چلے گئے تو کبھی ایسا بھی ہوا کہ چند دن مری میں گزارے اور چند دن اسلام آباد میں، اس طرح سخت گرمی کا مقابلہ بھی کر لیا اور اپنا کام بھی متاثر نہ ہوا۔ اس سال کورونا کی وجہ سے اسلام آباد میں گھر میں محدود ہونے کے بجائے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ مری ہی جایا جائے.

ایک طرف تو موسم اچھا ملے گا اور دوسری طرف قدرتی طور پر سماجی دوری کو برقرار رکھنا بھی آسان ہوگا۔ اگرچہ مری میں رہنے والوں کی اکثریت کے لئے کورونا کی کوئی حیثیت نہ کل تھی، نہ آج ہے لیکن اس کے باوجود احتیاط کرنے والوں کے لیے باہر نکلنے، واک اور ہائکنگ کرنے کے بہت مواقع ہیں۔ گویا برسوں بعد ایک لمبے عرصہ کے لیے مری میں اپنے گائوں میں رہنے کا موقع ملا، واک بھی خوب کی، ہائکنگ بھی جاری ہے، گھر سے کام (work from home) کرنے کا بھی یہاں اپنا ہی لطف ہے۔

واک اور ہائکنگ کے دوران اپنے مشاہدے اور مقامی لوگوں سے بات چیت کی بنیاد پر دو معاملات ایسے ہیں جن کے بارے میں سوچا کہ اِن پر لکھوں تاکہ متعلقہ اداروں اور ذمہ داران کی توجہ اس طرف دلوا سکوں۔ ایک معاملہ تو جنگلات میں کچرا پھینکنے کے متعلق ہے جس سے صرف مری کے قیمتی جنگلات اور قدرتی ماحول کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کی طرف کسی کو کوئی توجہ نہیں۔ میں گائوں کی سڑک سے واک کرتے بھوربن جھیکا گلی سڑک پر نکلتا ہوں تو ہر ٹھوڑے تھوڑے فاصلہ پر سڑک کناڑے جنگل میں کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔

عوام کو نہ تو صفائی کا خیال ہے نہ اپنی ذمہ داری کا احساس۔ مقامی رہنے والے ہوں، ٹورسٹ یا ہوٹل اور ریسٹ ہاوس والے، جس کا جہاں جی چاہتا جنگل میں کوڑا کرکٹ پھینک دیتا ہے۔

مری کی انتظامیہ، پنجاب حکومت، ضلع و تحصیل کے متعلقہ اداروں کسی کی اس طرف کوئی توجہ نہیں اور یوں مری کے جنگلات کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کیے جانے کا وہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے جسے نہ روکا گیا تو یہ خوبصورت مقام رہنے اور دیکھنے کے قابل نہیں رہے گا۔ میری وزیراعظم عمران خان، حکومتِ پنجاب، محکمہ جنگلات اور متعلقہ ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کی طرف توجہ دیں ورنہ مری کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔

دوسرے معاملہ کا تعلق مقامی بچوں اور نوجوان نسل سے ہے۔ ہمارا گائوں بھوربن کے بہت قریب ہے۔ بچپن میں ہم اکثر جنگل کی سیر کرتے کرتے یا گھومنے پھرنے کے لیے بھوربن کے گالف کورس میں چلے جاتے۔ عید کی نمازوں کا بھی وہاں اہتمام ہوتا لیکن اب میں یا کوئی بھی لوکل گالف کورس نہیں جا سکتا۔ کئی برسوں سے اس گالف کورس کو آرمی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

اس لیے اگر کسی نے وہاں جانا ہے تو کسی فوجی افسر کے حوالے سے ہی جا سکتا ہے۔ اسی طرح مری کے نوجوانوں کے لیے فٹ بال، کرکٹ، ہاکی وغیرہ کے لیے جھیکا گلی کے قریب کھڑیال کے دو گراونڈ بہت اہمیت کے حامل تھے۔ یہاں اکثر فٹبال، ہاکی اور کرکٹ کے ٹورنمنٹ ہوتے تھے۔

مجھے بھی ان دونوں گراونڈز میں کھیلنے کا موقع ملا۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں گراونڈز کی بہت کمی ہے جس کی وجہ سے ان گراونڈز کو ہمیشہ سے مری میں کھیلوں کے لیے ایک مرکزی حیثیت رہی ہے۔ کئی برسوں سے ان گراونڈز کو بھی فوج کے لیے مختص کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے مری کے نوجوان کو کھیلوں کی ایک بہت بڑی سہولت سے محروم ہو گئے ہیں۔

اگر کھیل کے میدان نہیں ہوں گے، نوجوانوں کو صحت مند تفریح کے مواقع نہیں ملیں گے تو پھر وہ منفی کاموں کی طرف متوجہ ہوں گے اور اسی لیے بہت شکایات مل رہی ہیں کہ مری میں نوجوانوں میں نشہ بہت عام ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مری میں چوری چکاری اور خصوصاً سیاحوں کو لوٹنے کے واقعات جن کے بارے میں ماضی میں کبھی سنا بھی نہ تھا، کی شکایات چند برسوں میں مل رہی ہیں۔

اس سلسلہ میں میری آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے درخواست ہے کہ مری میں واقع ایسے کھیل کے میدان جو فوج کے لیے اب مختص کر دیے گئے ہیں اُنہیں مقامی نوجوانوں کے لیے اور اسپورٹس ٹورنامنٹس کے لیے کھولا جائے اور ایک ایسا نظام وضع کیا جائے کہ فوج کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے۔

اس طرح کی پالیسی سے فوج کے وقار اور اُس کے عوام اور عوام کے درمیان رشتہ مضبوط ہوگا۔ مری کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نئے میدان نہیں بنائے جا سکتے اس لیے جو میدان یہاں ہیں اُن پر مقامی نوجوانوں کے کھیلنے کا حق کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین