• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواتین کے بنائو سنگھار والے۔ طرح طرح کے کھانے کھلانے والے۔ ہماری صحت اور فٹنس کا خیال رکھنے والے۔ شادیوں ولیموں کا اہتمام کرنے والے۔ ہماری آئندہ نسلوں کی تعلیم اور تربیت پر توجہ دینے والے۔ سب پریس کلبوں کے باہر احتجاج کررہے ہیں کہ ان کو بھی اپنا کاروبار کھولنے کی اجازت دی جائے۔ مارچ کے تیسرے ہفتے سے بندش کا آغاز ہوا اب اگست آنیوالا ہے۔

میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں اپنے حق کے حصول کے لیے سڑک پر کیوں نکلنا پڑتا ہے۔ایسا نظام کیوں نہیں ہے کہ مملکت کے سارے طبقوں اور حلقوں کا آپس میں مربوط تعلق ہو۔ باہمی تبادلۂ خیال سے ہی سب معاملات طے ہوتے رہیں۔ حکمرانی کی ایک بنیادی کڑی ہمارے ہاں یا تو سرے سے ہی نہیں۔ ہے تو برائے نام اور بے اختیار۔ آج اسی پر بات کرتے ہیں۔ لیکن سب سے پہلے تو آپ کو عید الاضحی کی مبارکباد۔ کورونا کے دنوں میں ہم نے عید الفطر بھی ماسک پہن کر ۔ سماجی فاصلہ رکھ کر منائی۔ مزا نہیں آیا۔ اب یہ قربانی کی عید بھی ایسے ہی عالم میں آرہی ہے۔ گائیں بکرے گلیوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلارہے ہیں۔ قواعد و ضوابط کی پابندی ہوسکے گی یا نہیں۔ ایک دو روز میں ہی اندازہ ہوجائے گا۔ وبا کے مکمل خاتمے اور معمولات کے بحال ہونے میں اب یہی مرحلہ باقی ہے۔ عالمی سطح پر اب یہ کہا جارہا ہے ۔ حالات معمول پر نہیں آئیں گے۔ بلکہ اب ہم معمول نو۔ New Normal اختیار کریں گے۔

آج کل چرچا عمران حکومت کے دو سال کا بھی ہے۔ انتشار اندر انتشار۔ میں نے سوشل میڈیا پر یہ عرض کیا کہ صرف حکومت کے ہی نہیں دو سال اپوزیشن کے بھی دیکھے جائیں۔ عدلیہ کے بھی۔ فوج کے بھی۔یہ سب مملکت کے ستون ہیں۔ ایک دردمند نے کہا کہ میڈیا کے دو سال کا جائزہ بھی لیں۔ اس جائزے کا نتیجہ تو یہی نکلے گا کہ۔ آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر۔

دو سال میں چھ مہینے کورونا کی نذر ہوگئے۔ اس کا نفسیاتی فائدہ حکمرانوں کو ضرور ملے گا کیونکہ یہ آفت بہرحال ناگہانی تھی۔ مگر اس کے مقابلے میں ہماری انتظامی صلاحیتوں کی آزمائش ہوئی ہے۔

اب آتے ہیں ہم احتجاج کی طرف۔ جن معاشروں میں مملکت کے سب ستون اپنا اپنا کام کررہے ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے سارے اجزائے ترکیبی پوری طرح فعال ہوتے ہیں۔ وہاں ہر طبقے کے مسائل ایک نظام کے تحت از خود حل ہوتے رہتے ہیں۔ ایک میکانزم بن جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی دَور میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں۔ سینیٹ۔ قومی۔ صوبائی اسمبلیاں تو بہت فعال ہوتی ہیں۔ خاص طور پر بیان بازی میں۔ لیکن ہر سیاسی دَور میں جمہوریت کی بنیاد یا جمہوری سیڑھی کے پہلے زینے کو فوج کی محبوبہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے سیاسی حکمرانوں کو بلدیاتی ادارے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ 1970کے بعد سال بہ سال دیکھتے آئیں ۔ کسی غیر فوجی دَور میں میونسپل کارپوریشنیں۔ کمیٹیاں۔ یونین کمیٹیاں بھرپور انداز میں نہیں چلتی نظر آئیں۔ پاکستان کے ابتدائی دَور میں انگریز کا قائم کردہ بلدیاتی نظام بہت مضبوط طریقے سے چل رہا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اعزاز میں 25اگست 1947 کو کراچی میونسپل کارپوریشن ایک شایانِ شان استقبالیے کا اہتمام کرتی ہے۔ اس طرح 26مارچ 1948 کو چٹا گانگ کے شہری اپنے قائد کے لیے استقبالیہ منعقد کرتے ہیں۔ دوست ملکوں کے سربراہ آتے ان کے اعزاز میں بلدیاتی ادارے ہی خیر مقدمی تقریبات کا انعقاد کرتے۔ شہر کی چابی انہیں پیش کی جاتی۔

1958کے مارشل لا کے بعد جنرل محمد ایوب خان نے ایک مضبوط بنیادی جمہوریتی نظام دونوں بازوئوں میں بنایا۔ اور پھر انہی 80ہزار بلدیاتی ارکان کو اپنا انتخابی حلقہ بنالیا۔ اس کے بعد سے ہی سیاسی لیڈروں نے اس بلدیاتی نظام کو اپنی نفرت کا ہدف قرار دے دیا۔ پھر یہی باری لگی رہی کہ منتخب سیاسی حکومتوں کے دَور میں بلدیاتی ادارے زیادہ تر غیر منتخب رہتے ہیں۔ من پسند افراد ایڈمنسٹریٹر بنادیے جاتے ہیں۔ غیر منتخب فوجی حکومتیں آتی ہیں تو منتخب بلدیاتی ادارے وجود میں آجاتے ہیں۔

عالمگیر وبا کے دَور میں ہم نے دیکھا کہ دنیا میں جہاں جہاں کورونا کا مقابلہ تدبر اور کامیابی سے ہوا ہے وہاں بلدیاتی اداروں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مقامی حکومتیں ملک کا نظم و نسق چلانے۔ ڈسپلن برقرار رکھنے ۔ لوگوں سے قریبی روابط رکھنے۔ صحت کی بہتری۔ دماغی بے چینی دور رکھنے میں نتیجہ خیز رہی ہیں۔

لاک ڈائون۔ مکمل یا اسمارٹ۔ اسے بھی صوبائی حکومتوں نے مقامی حکومتوں کے مشوروں سے ہی کامیاب کروایا ہے۔ سماجی فاصلوں کی پابندی۔ ماسک پوشی میں بھی ان ممالک میں منتخب کونسلروں۔ میئروں۔ چیئرمینوں نے اپنے فرائض بہت تندہی سے انجام دیے ہیں۔ بلدیاتی ادارے۔ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے دست و بازو رہے ہیں۔

اب جیسے جیسے وبا کا زور ٹوٹ رہا ہے تو بلدیاتی ادارے زیادہ بہتر۔ زیادہ منظّم انداز میں نئے معمول کی طرف پیشرفت کرسکتے ہیں۔ یہ کونسلر۔ چیئرمین۔ میئر اپنے اپنے علاقوں کی صورت حال دیکھ کر اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں۔ ریستورانوں۔ میرج ہالز۔ جمنازیم۔ بیوٹی پارلرز۔ اور دوسرے کاروباریوں سے مشاورت کرکے کاروبار کھولنے کا نظام الاوقات طے کرسکتے ہیں۔پانچ چھ ماہ کاروبار بند رہنے سے متوسط طبقے کو یقیناً سنگین مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے اپنے اخراجات۔ بجلی پانی کے بل۔ اور دوسرے واجبات۔ وبا کا دبائو۔ نفسیاتی ذہنی اثرات۔ پھر مالی مشکلات۔ حکومتوں کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں سے خود رابطہ کریں۔ ان کے لیے آسانیاں فراہم کریں نہ کہ پہلے سے مسائل میں مبتلا طبقوں کو سڑکوں پر آکر احتجاج کرنا پڑے۔ اب جب بارشوں کا زور ہے۔ پھر بلدیاتی اداروں کی غیر فعالیت کا احساس دو چند ہورہا ہے۔ ہر چھوٹے سے مسئلے میں وزیر علیٰ یا وزیر اعظم سے ملاقات کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ ایک بتدریج ارتقائی نظام قائم کریں۔ یقین کیجئے کہ ایک با اختیار بلدیاتی نظام ہی جمہوریت کو بہت سے طوفانوں سے بچا سکتا ہے۔ لیڈروں کی نئی نسلوں کو جنم دے سکتا ہے۔

تازہ ترین