• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر معاذ بن بلال، بھارت

دہلی میں فسادات اور امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کی اموات کو چین سے نکلی انوکھی بیماری کڑی ٹکّر دے رہی تھی۔ ایمیزون کے جنگل جَل رہے تھے یا یوں کہیں کہ جلائے جا رہے تھے، لگ بھگ دو فُٹ بال فیلڈز بھر رقبہ، فی منٹ۔ طوفان،’’ انفان‘‘ بنگال کی کھاڑی کا تین سو سال کا سب سے طاقت وَر طوفان تھا۔اس کے ختم ہونے تک عرب ساگر بھی جوش میں آ گیا۔ کسی زمانےمیں ایسے ہی وقت کو’’ دی ٹین پلیگز آف ایجپٹ‘‘(The Ten Plagues of Egypt )کہا گیا تھا۔ اُن قدرتی آفات کی وجہ مِصر کا ظالم اور گناہ گار حکم ران، فرعون تھا۔2020 ء کے اسی منظر نامے کے دَوران حبش کے کچھ ٹڈّوں نے سوچا کہ’’ بھائی! ہم کیوں پیچھے رہیں؟ 

انسان کو مزہ کیا صرف ہمارے پینگولین اورچمگادڑ بھائی ہی سِکھا سکتے ہیں؟ طوفان کے بونڈروں( بگولوں) میں جو بات ہے، کیا وہ ہمارے پَروں میں نہیں؟‘‘اُن ٹڈّوں نےپھر ایران میں اپنی ایک کانفرنس بلائی اور سمندر لانگ لگے ریگستانوں کی خاک چھاننے۔ اُن کے لیڈر نے مائک تھامتے ہوئے کہا ’’اب موقع آیا ہے، انسان سے بدلہ لینے کا۔ بہت جراثیم کُش ادویہ اُڑائے پِھرتا ہے۔ بتا دو اِسے کہ ہم کسی سے کم نہیں۔ یہ ہمیں جراثیم کُش سے مارتا ہے،تو ہم اسے بُھک مَری سے ماریں گے۔مَیں کہتا ہوںبھائیو اور بہنو! تم مجھے اپنے پَر دو اور مَیں تمھیں لہلہاتی فصلیں دوں گا۔‘‘بِھیڑ چلّانے لگی’’ نیتاجی، نیتاجی!!‘‘نیتا جی کی اِن باتوں نے سبھی ٹڈّوں کی حوصلہ افزائی کی۔اُنہوں نے فوراً اپنے فیملی اور فرینڈ گروپس میں اِس نئے، طاقت وَر اور چوڑی چھاتی والے نیتا جی کی مَن کی بات وائرل کر دی۔ 

چڑیوں کی چہچہاہٹ اور ٹویٹس نے بھی ان کی بات دُور دُور تک پہنچانے میں جم کر مدد کی۔اس کے عوض نیتاجی کے بھگت ٹڈّوں نے چڑیوں کو اچھی رقم سے نوازا۔ اور دُور دُور…ایران، توران، عراق، سمرقند، بخارا، تاشقند، کابل غرض سبھی علاقوں سے ٹڈّے’’ جے شری نیتاجی‘‘ کے نعروں کے ساتھ اپنے گھروں سے نکلنے لگے۔’’بامبی وہیں بنائیں گے‘‘ کا نعرہ بلند ہوا اور سبھی ٹڈّے انسان کو پریشان کرنے روانہ ہوئے۔

پہلے راستے میں پڑا بلوچستان۔ یہاں جب انسان نے دیکھا کہ ٹڈّے لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں تباہی مچانے نکل آئے ہیں، تو اُس نے سوچا، اِس سے پہلے کہ یہ اپنی بامبیاں بنائیں، اسے ان پر دوزخ کی آگ برسا دینی چاہیے، جو انھیں جھلسا دے، لیکن ٹڈّے اب اکیلے تھے اور نہ ہی وہ چھوٹے موٹے جُھنڈ میں تھے۔ وہ ایک دَل، ایک بِھیڑ بن چُکے تھے۔کہاں کسی سے ڈرنے والے تھے؟ پھر کیا تھا؟ اُنہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بلوچستان پر وہ قہر ڈھایا کہ اُس کی رُوح کانپ اُٹھی۔ پَل میں ساری گندم صاف کر ڈالی۔ گیہوں کی ایک ایک بالی کی کوکھ چیر کر اُس کا ہر ایک دانہ کھینچ نکالا تاکہ بلوچستان میں پھر کبھی اناج کا کوئی سنہرا ذرّہ بڑا ہو کر لہلہاتی کَنک نہ بن سکے۔اب خالی پیٹ کون سا انسان آگ لگاتا؟اور تو اور، اُس آگ کی کوشش کے بدلے میں ٹڈّوں نے ساری کی ساری افیم بھی صفا چَٹ کر ڈالی۔

اب وہ تھے بھر پیٹ اور بدلے کے آگ بجھائے نشے میں چُور۔ نیتاجی اُن سے بولے’’ اب یہ انسان کھائے گا کیا اور پھونکے گا کیا؟ اس کا تو کام ہوا تمام۔‘‘تب ایک چیونٹے نے نیتاجی سے پوچھا’’ محترم نیتا جی! اِتنی فصلیں تباہ ہو گئیں، کَنک کی اتنی لاشیں گریں، گندم کی بالیوں کی کوکھ سونی ہو گئی، افیم کی لاج لُٹی، آپ کو ذرا دُکھ نہیں ہوا؟‘‘نیتا جی نے تپاک سے جواب دیا’’ ارے بھائی! درد تو ایک پِلّے کے مرنے سے بھی ہوتا ہے۔‘‘ پھر ٹڈّی دَل سے بولے’’ چلو اب سب یہاں سے، بامبی ابھی آگے بنائیں گے۔‘‘’’جے شری نیتاجی‘‘ بِھیڑ کی آواز آئی۔ٹڈّی دَلوں نے پھر فٹافٹ سے سبھی فیملی اور فرینڈ گروپس پر میسج پہنچا دئیے۔ سب اکٹھے آگے بڑھے۔ نیتا جی سے اپنا مختصر سوال پوچھنے کے بعد سے چیونٹا کہاں غائب ہے؟یہ آج تک کسی کو معلوم نہیں۔ چیونٹے کی بیوی کو معاوضہ بھی نہیں ملتا، کیوں کہ چیونٹا لاپتا ہے، نہ کہ مُردہ اور چیونٹی صرف آدھی بیوہ ہی قرار دی گئی ہے۔ چیونٹی کے پاس ٹڈّوں والے انٹینے ہیں، نہ ٹانگیں، فرینڈز ہیں اور نہ ہی بڑی فیملی۔ وہ کسی بھی گروپ پر میسج وائرل کرنے کے لیے نااہل ہے۔

خیر! ٹڈّی دَلوں نے پھر کچھ دن سندھ اور پنجاب میں قیام کیا۔ یہاں کی زرخیز زمین کے پھل، خاص طور پر آم اُنہیں بہت پسند آئے۔ جب تک اُنہوں نے یہاں کی سبھی فصلیں اور باغ صاف کیے، تب تک پنجاب کے حکم ران اپنی ترکیب سوچ چُکے تھے۔ پنجاب نے طے کیا کہ ان بدذات، بھوکے، بدزبان ٹِڈّوں کو ان ہی کی طرز کا مزہ چکھایا جائے۔’’ یہ ہمارا کھانا کھا رہے ہیں، ہم شوق سے انہیں ہی چبا جائیں گے۔ تیس، چالیس ہزار چبا جاؤ، باقی بدزبان ٹِڈّے خود ہی لائن پر آ جائیں گے۔‘‘نیتاجی کے اینٹینے تو بہت ہی تیز تھے۔ اُنہوں نے جَھٹ اس ترکیب کی خبر لگائی اور پَٹ اس کا توڑ بھی سوچ لیا۔دو دستے تیار کیے، ایک فدائینِ دَل اور دوسرا مُکتی دَل۔ 

نام دو، کام ایک- انسان کا رزق بن جانا۔ آپ پوچھیں گے یہ کیسا توڑ ہے؟ یہ تو سراسر خود کشی ہے، آتما ہتیا ہے۔جی ہاں، لیکن ایسی ویسی آتم گھاتی ہتیا نہیں- یہ تھی دشمن کو ساتھ لے ڈوبنے والی موت۔ اب بھی نہیں سمجھے؟ دراصل، آپ کی طرح پنجاب کے حکم ران بھی یہ بات بھول چُکے تھے کہ ٹڈّوں کو مارنے کے لیے انسان اُن پر کتنے جراثیم کُش استعمال کر چُکا تھا۔ اب تیزابی بارش کی طرح ٹڈّے بھی زہر سے بھرے تھے۔ اور انسان چاہے اُنہیں بھون کر کھائے یا تَل کر، انجام تھا اس کا ایک…موت۔ اکیلی، بھیانک موت۔اور نیتا جی کی سرپرستی میں وہ بدزبان ٹڈّے انسان کے چٹخارے کا ذریعہ بننے کو بے تاب تھے۔انسان کا کیا تھا۔ اُس نے ٹڈّی زہر کے آگے بُھک مَری سے مرنا بہتر سمجھا اور جلد ہی ٹڈّی کھانا چھوڑدیا۔

نیتاجی کی سرجیکل اسٹرائیک ہوئی کام یاب۔پنجابیوںاور سندھیوں کو سبق سِکھانے کے بعد اُنہوں نے اب گجرات اور راجستھان کے ذریعے دہلی کا رُخ کیا ۔انہوں نے پھر آواز بلند کی’’ بامبی وہیں بنائیں گے۔‘‘پر گجرات، راجستھان میں پَر-و-پا رکھتے ہی اُنہوں نے کیا دیکھا کہ اُن کی پیدا کی ہوئی آفت سے یہاں کے انسان کو تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ چمچماتی دُکانوں میں ٹمٹماتی ٹی وی اسکرینز پر ایک شرم ناک گدھیرجی نام کا شخص ٹڈّیوں کا سارا الزام پاکستان پر دھرے ہے۔ نیتا جی کا نہ نام،نہ نشان۔ اُن کی پیدا کی ہوئی بُھک مَری سے انسان ہجرت تو ضرور کر رہا تھا،لیکن نیتا، اداکار، گیت نگار، صحافی، گلوکار، سب پاکستان، پاکستان کی رٹ لگائے جا رہے ہیں۔ ٹڈّی تو ٹڈّی، کوئی ساری کائنات پر رتّی بھر دھیان دینے کو راضی نہیں۔ انسان مر رہا تھا بِنا اناج کے، کسی بھی طرح کے کھانے کے۔ 

گھاس کھا رہا تھا،جسے ٹڈّے بھی نہیں کھاتے، پر نہ ٹڈّی دَل کو کریڈٹ دیا جا رہا تھا، نہ عزّت۔ سامنے سے ڈٹ کر مقابلہ تو چھوڑو۔ ٹڈّے سب کھائے جا رہے تھے اور یہ ٹی وی کا شرم ناک پُوچھے، چیخے جا رہا تھا’’ آخر یہ ٹڈّے آئے کہاں سے؟مُلک جاننا چاہتا ہے؟‘‘ پھر خود ہی جواب دیتا’’ پاکستان سے ہی ناں۔ یہ صرف دشمن پڑوسی مُلک کی سازش ہے، گُھس بیٹھ کرنے کی، یہ ٹڈّے گُھس بیٹھیے ہیں۔‘‘

نیتا جی کو ایسا لگنے لگا کہ اُن کے پَروں تلے ہوا سرک گئی ہو ۔ مانو کہ اُن کی اور دو سو کروڑ ٹڈّوں کی، یہاں تک کہ ساری کائنات کی، انسان کے سامنے کوئی اہمیت ہی نہیں۔ جب کہ ہزاروں انسان مر رہے تھے، لاکھوں ،کروڑوں بُھک مَری کے شکار تھے اور نیتا جی کو یقین تھا کہ یہ سب ٹڈّوں ہی کا کیا دھرا تھا، پھر بھی ساری گفتگو، سب غور و فکر کا موضوع پاکستان کی سازش ہی تھی۔ کسی نے اس بات پر رتّی بھر نظر نہ ڈالی کہ ٹڈّوں نے تو بلوچستان، سندھ، پنجاب، گجرات، راجستھان میں کوئی فرق نہیں کیا تھا۔ جیسے کہ انسان کو اپنی نفرتوں کے سِوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ 

اپنے غصّے کے آگے،جسے اب یہ ٹی وی اور موبائل پر زیادہ دِکھاتا ہے یا موقع آنے پر ایک بِھیڑ بن کر، نہتّوں پر لٹاتا ہے۔ اُسے اور کسی کا غصّہ دِکھائی نہیں دیتا۔انسان کو پتا ہی نہیں کہ یہ زمین، یہ دھرتی کتنی غصّے میں ہے۔ یہ دو پل کی لرزش کو محسوس کر کے بھول جاتا ہے۔ یہ جانتا ہی نہیں کہ اس کے شہر، اس کے دارالحکومتوںپر کیسے زلزے برپا ہونے والے ہیں۔ یہ بس چِلاّتا رہتا ہے’’ پاکستان، پاکستان‘‘ اور دوسری طرف سے جواب بھی ملتا ہے۔اور تو اور، آج کل کی ایک چرچا معصوم کبوتر بھائی کے انسانی مخبر اور گھس بیٹھیا ہونے کی بھی ہے ۔ اس شور میں یہاں اور وہاں کے بھوکے پیٹوں سے نکلتی سسکیوں کو تو کوئی نہیں سُنتا۔ انسانی راجا تو ویسے ہی کوئی دیسی فصل نہیں کھاتے۔ نہ میڈ اِن انڈیا نہ پاکستان، نہ بنگلادیش، نہ سری لنکا، نہ مالدیوز۔

نیتاجی اِسی سوچ میں غرق تھے کہ اُن کے اردلی نے آکر سلامی دی’’ جے شری نیتا جی ! ہم گجرات، راجستھان اور ہریانہ کی ساری فصلیں، اناج چارہ اور پھل چَٹ کر چُکے ہیں۔ کیا اب دہلی کی طرف کُوچ کیا جائے؟‘‘نیتا جی نے جواب دیا’’نہیں۔‘‘اردلی کو کچھ سمجھ نہ آیا۔سوچا کہ شاید اُس سے سُننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔سنہرے سپنوں سے بَھری نظریں اُٹھائے،پُرامید لہجے میں پھر پوچھا’’نیتا جی،چلیں؟ بامبی وہیں بنائیں گے۔‘‘نیتا جی نے پھر سے کہا’’ نہیں۔ ہمیں دہلی جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم ریگستان ہی میں ٹھیک ہیں۔ یہ انسان ہی انسان کو کھا جائے گا یا بھوکا مار دے گا۔ وہ منٹو مر گیا، ٹیٹوال کے کتّے اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بڈّھے کو روتے روتے۔ کسی نے کچھ نہیں سُنا، کچھ نہیں سیکھا۔ یہ خود مَر جائے گا یا زمین اسے نگل جائے گی۔ ہم کیوں زحمت کریں؟‘‘

(مضمون نگارجندال گوبل یونی ورسٹی سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں، کئی کتب کے مصنّف اور معروف مترجّم ہیں)

تازہ ترین