• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ عید کے دوسرے دن میری بہنیں آئیں گی، تو ایسا کرتے ہیں، بکرے کی رانیں روسٹ کرنے کے ساتھ کچھ گولا کباب بنا لیں گے اور ساتھ ہی بار بی کیو بھی ہوجائے گا۔ اور ہاں! بیف بریانی بھی تو ضروری ہے، میرے بھانجے بریانی بہت شوق سے کھاتے ہیں۔کتنی اچھی دعوت ہوجائے گی ناں۔‘‘ اہلیہ نے ایک ہی سانس میں مینیو بتا دیا۔ ہم نے عرض کیا’’ پہلی بات تو یہ کہ قربانی صرف اپنا فریج بَھرنے کے لیے نہیں اور دوسری بات یہ کہ تم کب سے کھانے پکانے کی اِتنی ماہر ہوگئی، جو یوں ڈشز کے نام گنوا رہی ہو۔تم تو بس انڈے آملیٹ ہی کی بات کرو، جس میں ایکسپرٹ ہو۔‘‘بس جی، ہمارا یہ کہنا تھا، پھر یوں لگا جیسے کسی نے تپتے توے پر پانی کی چھینٹ ڈال دی ہو۔ 

ناراض ہوتے ہوئے بولیں’’ ہاں بھئی! آپ کا آملیٹ کھانے ہی سے دو مَن وزن ہوا ہے۔گھر میں جو گوشت آتا ہے، وہ تو محلّے کی بلیاں کھاتی ہیں۔‘‘لڑائی جھگڑا تو ویسے بھی بُرا ہے، مگر تہواروں پر تو تیور ٹھیک ہی رکھنے چاہئیں، سو ہم نے جوابی حملہ کرنے کی بجائے گزارش کی’’لیکن تم اِتنی ساری ڈشز بناؤ گی کیسے؟ کیا عید کچن میں گزارو گی؟‘‘وہ بولیں’’ یہ کب کہا ہے کہ مَیں بناؤں گی۔شہر میں جگہ جگہ بینرز لگے ہوئے ہیں’’ گوشت آپ کا، ذائقہ ہمارا‘‘ تو وہاں گوشت لے جائیے گا، باقی کام وہ خود کرلیں گے، ہمیں تو بس تھوڑے سے پیسے دینے ہوں گے۔‘‘ اِن ’’تھوڑے‘‘ سے پیسوں کو تو ذرا بعد میں گنتے ہیں، پہلے کچھ اور باتیں کرلیں۔

ہم نے ناظم آباد نمبر 4 سے اُن بینرز کی تلاش کا آغاز کیا اور جلد ہی ایک بیکری کے سامنے جا پہنچے، جہاں گوشت پکوائی کا بینر آویزاں تھا۔حیرانی ہوئی کہ آٹا اور میدہ بھوننے والوں کا گوشت سے کیا لینا دینا، مگر پھر بھی کاؤنٹر پر بیٹھے لڑکے سے پوچھ ہی لیا’’ بھائی گوشت پکوائی کا کیا حساب، کتاب ہے؟‘‘ اُنھوں نے جواباً کہا’’ صاحب! ہم تو یہ کام نہیں کرتے۔یہ بینر ایک دوست نے لگایا ہے، اُن کا نمبر آپ کو دے دیتا ہوں، بات کرلیں۔‘‘ ’’ ویسے وہ کیا کام کرتے ہیں؟‘‘اِس سوال پر اُنھوں نے جو جواب دیا، اُس نے ہمیں وہاں سے کھسکنے ہی پر مجبور کردیا۔ بولے’’ جی! وہ سبزی کا ٹھیلا لگاتے ہیں۔‘‘ توبہ ہے، ہم تو ابھی تک موسمی قصابوں ہی کو بھگتتے چلے آ رہے ہیں کہ اب’’ عیدو باورچی‘‘ بھی میدان میں آگئے۔ گوشت دیتے ہوئے اچھی طرح دیکھ لینا چاہیے کہ وہ روسٹ ہی بنانے والا ہو، گھوسٹ نہیں۔ پاپوش نگر میں پکوان ہاؤسز کی پوری مارکیٹ ہے، سوچا وہاں کا چکر لگا لیا جائے، ضرور کوئی اچھا اور سستا باورچی مل جائے گا۔ وہاں پہنچے، تو بینر ندارد۔ 

آخر اِدھر اُدھر گھوم پِھر کر ایک بینر تلاش کر ہی لیا، جس پر لکھا تھا’’ ہنٹر بیف، بکرے کی تندوری ران، بار بی کیو، بیف روسٹ، گولہ کباب، گلاوٹ کباب کے لیے رابطہ کیجیے۔‘‘چھوٹی سی دُکان میں قائم ’’پکوان ہاؤس‘‘ میں پڑی بینچ پر ایک صاحب آرام فرما رہے تھے، ہمیں دیکھا ،تو اُٹھ بیٹھے اور سوالیہ نظروں سے گھورنے لگے۔ ہم نے خالصتاً کاروباری انداز میں پوچھا’’ آپ کیا کچھ بنا لیتے ہیں؟‘‘اِس پر گردن فخریہ طور پر ذرا سی ٹیڑھی کرتے ہوئے بولے’’ سب کچھ بنا لیتے ہیں۔‘‘ ہم نے دِل میں سوچا’’ شاید بے وقوف بھی۔‘‘بہرحال، اُن سے ریٹ لسٹ لی اور آگے بڑھ گئے۔

ابھی کسی اور طرف جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ایک پرانے واقف کار پر نظر پڑ گئی، جو گوشت مارکیٹ کے کونے میں ایک کیمیکل کی دُکان پر بیٹھے تھے۔جب اُنھیں ہمارے تلاش مشن سے متعلق پتا چلا، تو اپنی بائیک پر بٹھا کر ایک دُکان پر لے گئے، جہاں ’’گوشت آپ کا، ذائقہ ہمارا‘‘ کا بینر جھول رہا تھا۔ دوست نے موٹر سائیکل روکتے ہوئے کہا’’ آؤ! اِن سے بات کرتے ہیں۔‘‘ ہم نے کہا’’ کوئی ضرورت نہیں ہے، چلو چلتے ہیں۔‘‘ وہ ہمارا منہ تکنے لگے، جیسے ہم کوئی’’ چَریا‘‘ ہوں۔ ہم نے کہا’’ یار! ناراض نہ ہوں۔ دکان میں بیٹھے شخص کی طرف دیکھیں، کس بے دردی و بے نیازی سے ناک میں انگلیاں گھما رہا ہے۔ یہ کہیں’’ کورونا مین‘‘ نہ ہو۔‘‘اب دیکھیے ناں صاحب! کھانے پینے کا معاملہ ہے، تو بھلا صفائی ستھرائی کو کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں۔آنکھوں دیکھے تو گوبر نہیں کھایا جاسکتا۔ اب باہر پکوائی کا یہ مطلب تو نہیں کہ اپنی صحت ہی داؤ پر لگا دیں۔

قصّہ مختصر، ایک جاننے والے کے مشورے پر دُکانوں کے چکر چھوڑ کر فون گھمانے شروع کردئیے۔ شہر کے سب سے معروف نام، ایک فوڈ چین کا نمبر ڈائل کیا، جن کی کئی برانچز شہر میں کام کر رہی ہیں۔ دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز آئی اور کاروباری اخلاقیات کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا گیا’’ جی فرمائے! آپ کی کیا مدد کی جاسکتی ہے؟‘‘ ’’ جی وہ ہم نے عید پر گوشت پکوانا ہے، تو اِس سلسلے میں فون کیا تھا۔‘‘ ہمارا مدعا سمجھتے ہوئے بولیں’’ جی سر! ہم ہنٹر بیف اور بکرے کی تندوری ران کی سروس فراہم کرتے ہیں۔ پلیز، اپنا آرڈر بتائیے۔‘‘وہ تو سانس لینے کا موقع بھی دینے کو تیار نہیں تھیں، مگر ہم نے ہمّت کرکے پوچھ ہی لیا’’ محترمہ! پہلے ریٹس سے تو آگاہ کردیجیے تاکہ آرڈر دینے میں آسانی رہے۔‘‘ اِس پر اِک شانِ بے نیازی سے گویا ہوئیں’’ ہماری ریٹ لسٹ تو چاند رات ہی کو آئے گی، مگر آپ مطمئن رہیے، وہ بالکل افورڈ ایبل ہوگی۔‘‘ ہم نے سَر کھجاتے ہوئے نیا سوال داغا’’ ایسا کیجیے، پچھلے سال ہی کے ریٹس بتا دیجیے تاکہ کچھ تو اندازہ ہوسکے۔ 

اصل میں، مَیں پہلی بار آپ کی سروس حاصل کر رہا ہوں، اِس لیے کوئی آئیڈیا نہیں ہے۔‘‘ اُنھوں نے پچھلے سال کے ریٹ یہ بتائے، ہنٹر بیف 350 روپے فی کلو اور بکرے کی تندوری ران 400 روپے کلو۔ اِس پر ہم نے کہا’’ میڈم! ہمارے ہاں بہت خاص مہمان آ رہے ہیں، اِس لیے ایسا نہ ہو کہ کہیں اونچی دُکان، پھیکے پکوان والی بات ہوجائے۔‘‘ بولیں’’ سوری! ہم میٹھے میں کوئی ڈش نہیں بناتے، اِس لیے ہمارے ہاں پھیکے پکوان نہیں بنائے جاتے۔ بہت معذرت خوا ہیں۔‘‘ ہم نے اللہ کا شُکر ادا کیا کہ محاورہ محترمہ کے پلّے نہیں پڑا۔ پھر ایک اور معروف بیکرز کا نمبر ڈائل کیا، یہ بھی اِس حوالے سے خاصا معروف نام ہے۔ہمارے سوال پر بتایا گیا کہ وہاں سالم تندوری بکرے کے لیے 400 روپے فی کلو وصول کیے جاتے ہیں، جب کہ ہنٹر بیف 320 روپے فی کلو کے حساب سے بنوایا جا سکتا ہے۔ کچھ دیگر سوئیٹ شاپس اور بیکرز کو بھی فون کیے، مگر پتا چلا وہ اپنا اصل کام ہی کرتے ہیں، وہاں گوشت پکوائی کا کوئی انتظام نہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر عید پر اِس طرح کی ڈشز گھر پر بنانے کی بجائے بازاروں کا رُخ کیوں کیا جاتا ہے؟ اپنے گھر کی بات تو آپ کو بتا ہی دی کہ سُسرالیوں کی دعوت کا وزن داماد کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ناظم آباد کی رہائشی، فرحین اسلم ایک اسکول ٹیچر ہیں۔ اُن کے ہاں بھی بقر عید پر کئی ڈشز باہر سے بنوانے کا رواج ہے۔ اُنھوں نے اِس ضمن میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں بتایا’’ ایسا نہیں ہے کہ عید کے موقعے پر گھر میں کچھ بناتے ہی نہیں۔البتہ، بعض ڈشز ایسی ہیں کہ جنھیں گھر پر بنانا مشکل ہے اور سب سے اہم یہ کہ اُن کے بنانے پر خاصا وقت صَرف ہوتا ہے۔ بس اِس لیے کچھ لوازمات باہر سے پکوا لیتے ہیں۔‘‘احسن ہمارے محلّے دار اور دوست ہیں، وہ بھی بقر عید پر گوشت لیے بازار کے چکر لگاتے پِھرتے ہیں۔

اُن کی والدہ ہمیں اپنے بچّوں کی طرح سمجھتی ہیں، سو اُن سے بھی پوچھ لیا کہ’’ خالہ جی! کیا بازار کا ذائقہ زیادہ اچھا ہوتا ہے، جو آپ وہاں سے بکرے کی رانیں بُھنواتی ہیں؟‘‘ کچھ ڈانٹنے کے سے انداز میں بولیں’’ تو تم یہ کیوں چاہتے ہو کہ عورتیں سارا دن کچن میں گزار دیں اور مرد دستر خوان پر بیٹھے کھانے میں نقص تلاش کرتے رہیں۔‘‘ پھر کچھ نرم لہجے میں گویا ہوئیں’’ دیکھو بیٹا! عورتوں کو بھی عید کی تیاری کرنی ہوتی ہے، پھر یہ کہ عید پر دعوتیں بھی چلتی رہتی ہیں، ایسے میں خواتین کے لیے ایسی ڈشز بنانا بہت مشکل ہوتا ہے، جس کی وہ عادی نہ ہوں، جیسے بار بی کیو وغیرہ، تو اِس لیے مجبوراً بازاروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ باقی جہاں تک ذائقے کا تعلق ہے، تو اِس کا انحصار پکانے والے پر ہے۔ کبھی ذائقہ اچھا ہوتا ہے اور کبھی لگتا ہے کہ گوشت اور پیسے ضایع ہو گئے۔‘‘

چوں کہ اِس بار عید ایک ایسے ماحول میں آئی ہے، جب کورونا وائرس مسلسل انسانوں کے تعاقب میں ہے اور اب تک کروڑوں افراد کو اپنا نشانہ بنا چُکا ہے، جس میں کئی لاکھ پاکستانی بھی شامل ہیں، تو ایسے میں یہ سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا کورونا سے اِس کاروبار پر بھی کوئی فرق پڑا ہے؟ اِس کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ’’ بالکل پڑا ہے اور وہ بھی منفی۔‘‘ اِس کی وجہ یہ ہے کہ باہر سے ڈشز بنوانے کا رواج امیر یا متوسّط طبقے ہی میں پایا جاتا ہے۔چوں کی اِن طبقات میں تعلیم کے سبب باقی افراد کی نسبت شعور کی سطح بھی بلند ہوتی ہے، اِس لیے یہ لوگ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے دوسروں کے مقابلے میں احتیاطی تدابیر بھی زیادہ اختیار کرتے ہیں۔چوں کہ باہر سے کھانا بنوایا جائے، تو اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اُسے کورونا سے بچاؤ کے لیے طے کردہ ایس او پیز کو مدّ ِنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہوگا۔ کیا خبر گوشت کو چُھونے والوں کے ہاتھ کہاں کہاں لگتے ہوں؟ 

برتنوں کو کون کون استعمال کر رہا ہو؟ پھر یہ بھی نہیں پتا کہ پکانے والوں نے ماسک اور دستانوں کا استعمال کیا یا نہیں؟ کہیں وہ کھانے ہی پر کھانستے، چھینکتے نہ رہے ہوں، جیسا کہ عام دنوں میں ہوتا ہے۔مختلف افراد سے بات چیت کے دَوران اِس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ کمر توڑ منہگائی نے باہر سے کھانے بنوانے کی حسرت ہی کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ گزشتہ برس کے ریٹس کی ایک جھلک تو آپ دیکھ ہی چُکے ہیں، کیا خبر اِس بار کیا دام ہوں؟ لیکن ایک بات واضح ہے کہ جو بھی ریٹ ہوں گے، وہ کم ازکم متوسّط طبقے کی پہنچ سے دُور ہی ہوں گے۔

احمد تنولی کریم آباد ، مینا بازار کے قریب عید کے تینوں روز کھانا پکانے کا ایک چھوٹا سا اسٹال لگاتے ہیں، جس سے اُنھیں معقول آمدنی ہوجاتی ہے، مگر اِس بار وہ خاصے پریشان ہیں۔ اُن کا کہنا ہے’’ ہمارے پاس تو عام لوگ ہی آتے ہیں کہ اُن کا کم قیمت پر کام بن جاتا ہے۔ ہماری بہت زیادہ لیبر ہوتی ہے اور نہ ہی ہزاروں روپے کے کرائے، تو ہم اِسی حساب سے پکوائی کے کم پیسے وصول کرتے ہیں ،مگر منہگائی نے جس طرح عام آدمی کو’’ پاگل‘‘ سا کردیا ہے، ایسے میں وہ اپنے بچّوں کے لیے آٹے کا بندوبست کرے گا یا ہمارے پاس ڈشز بنواتا پِھرے گا۔‘‘

ڈاکٹر عالیہ رشید غذائی اُمور کی ماہر ہیں اور نیشنل میڈیکل سینٹر، کراچی سے وابستہ ہیں۔ اُنھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا’’ باہر سے کھانا پکوانا کوئی غلط کام نہیں، بس یہ دھیان میں رہنا چاہیے کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کی پوری طرح پاس داری کی گئی ہو۔ گھروں پر کھانا بناتے ہوئے گوشت اچھی طرح صاف کیا جاتا ہے، جب کہ مسالے اور آئل وغیرہ بھی خالص استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن باہر عام طور پر گوشت کو اچھی طرح صاف نہیں کیا جاتا، اُس پر خون لگا رہتا ہے۔اِس لیے ڈشز وہیں سے بنوانی چاہئیں، جہاں صحت کے بنیادی اصولوں کا خیال رکھا جاتا ہو۔خاص طور پر کورونا وائرس کے تناظر میں تو احتیاطی تدابیر کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔‘‘

تازہ ترین