• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تہوار کسی بھی تہذیب و معاشرت کا حُسن ہیں، جو اپنے اندراَن گنت خوشیاں، احساسات و جذبات اور رنگوں روشنیوں کی اِک قوسِ قزح سی سمیٹے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے’’عیدین ‘‘کی صُورت خصوصی تحفے، انعام و اکرام سے نوازا گیا ہے۔ ویسے تو مختلف مذاہب کے ماننے والےبہت جوش و خروش سے اپنے قومی و مذہبی تہوار مناتے ہیں، لیکن ان کا اور ہمارا تہوار منانے کا طریقہ و بنیاد یَک سر مختلف ہے۔ ہمارے دونوں ہی تہواروں کا تعلق نیت، نیکی اورثواب سے جُڑاہے۔یعنی ہمارا ربّ تہواروں کی صُورت بھی ہمیں نیکیاں کمانے کا موقع فراہم کرتاہے۔

ہر سال کی طرح اِمسال بھی عید الاضحی پورے تزک و احتشام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔وہ عید، جس کی بنیاد ہی ایثار ومحبّت اور اطاعتِ الٰہی پر ہے۔ یہ دن حضرت ابراہیم ؑ کی اللہ سے لا زوال محبّت و اطاعت کی یاد تازہ کرتا ہے کہ کیسے انہوں نے اپنے ربّ کے حکم کی تعمیل کے لیے اپنے نورِ نظر، حضرت اسماعیلؑ کی جان تک کی پروا نہیں کی اور کیسے ان کے پیارے بیٹے نے اللہ کی اطاعت اور والد کی محبّت میں قربان ہونا باعثِ فخر سمجھا۔پھر اللہ پاک نے بھی ان کے اِخلاص، نیک نیّتی، تابع داری کے صلے میں یہ سنّت قیامت تک کے لیے ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کردی۔ قربانی دَر اصل اس بات کا اعادہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے ربّ کی رضا کی خاطرہر وقت جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے،راہِ خدا وندی میں اپنی محبوب ترین شئے یا جان دینے سے جھجھکتا ہے، نہ ڈرتا ہے۔

قر آنِ کریم میں ارشاد ہے ’’اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اُسے صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘(سورۃ الحج، آیت نمبر 37)۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاںاکثر لوگ عیدِ قرباں پرپورے جوش و خروش سے سنّتِ ابراہیمیؑ پر عمل توکرتے ہیں، مگرعید الاضحی کا حقیقی مفہوم و مقصد نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ عیدِ قرباں کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کے گوشت جمع کرنا ہی ہے، جب کہ حقیقتاً اس اس تہوار کی اصل روح ، ’’تزکیۂ نفس‘‘ ہے۔نہ جانے کیوں ہم یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ دینِ اسلام میں ہر عمل کی بنیاد صرف اور صرف نیّت پر ہے۔ جس طرح بنا نیت کے نماز قبول نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح نمود و نمایش کی خاطر کی گئی قربانی بھی اللہ کے یہاں مقبول نہیں کہ باری تعالیٰ کی نظر کسی کے ظاہر پر نہیں،باطن پر ہوتی ہے۔

وہ بندوں کی شکل و صورت ، مال و دولت نہیں دیکھتا، اُن کے دلوں میں چُھپی اچھائی دیکھتا ہے۔یعنی، اگر آپ لاکھوں روپے مالیت کے جانور قربان کرکے بھی غربا، مساکین کو ان کا حصّہ نہیں دیتے، تو یاد رکھیں اللہ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے، نہ قربانی کی۔عیدِ قرباں کو ’’نمکین عید‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ اس عید پر خُوب دعوتیںہوتی ہیں، طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیںاور اس میںکوئی قباحت بھی نہیں، لیکن ذرا سوچیں، کیا بڑی عید کا مطلب صرف ذبیحہ کرکے دعوتیں کرنا ہےکہ دَر حقیقت ہمارا یہ تہوار تو غریبوں ، ناداروں کی خصوصی مدد کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر صرف اپنے ہم پلّہ گھرانوں کی دعوتیں کرنا، اُن سے میل جول بڑھانا اور غریب رشتے داروں کو نظر انداز کرناتو ویسے بھی انتہائی غیر اخلاقی حرکت اوراسلامی احکامات کے منافی عمل ہے۔

قربانی کی اصل روح کیا ہے؟اس حوالے سے ہم نے جامعہ بنوری ٹاؤن، کراچی کے مفتی غلام مصطفیٰ رفیق سے بات چیت کی ، توان کا کہنا تھا کہ ’’ علماء لکھتے ہیں قربانی کی دو صُورتیں ہیں۔ ایک ظاہری ، دوم حقیقی۔ ہم جو قربانی کرتے ہیں ،وہ اس کی ظاہری صُورت ہے کہ حقیقی شکل تو یہ ہے کہ انسانی جان کی قربانی دی جاتی، مگر اللہ پاک نے اپنے بندوں پر خاص کرم کیا،ہمیں اس امتحان میں نہیں ڈالا اور قربانی کے لیے جانور وں کوانسانوں کا قائم مقام کردیا۔ اب اس حوالے سے شریعت یہ کہتی ہے کہ ایسے جانور کی قربانی کی جائے، جس سے آپ کو انسیت ہو، جو آپ نے کسی فائدے کے لیے نہ خریدا ہو۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قربانی کا جانور عید الاضحی سے چند دن قبل گھرلے آنا چاہیے، پھر اسے کچھ روز پال کر، اس کی خدمت کرکے ذبح کرنا چاہیے کہ اللہ کے ہاں محبوب ترین جانور کی قربانی انتہائی مقبول ہے۔ 

یہاں مَیں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ عیدِ قرباں کا اصل مقصد صرف جانوروں کی قربانی نہیں، بلکہ اس کے ذریعے اس امر کا اظہار کرنا بھی ہے کہ ہم راہِ خدا میں اپنی پسندیدہ شئے، مال و دولت یہاں تک کہ اپنی جان تک قربان کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ ‘‘ ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ ’’کئی افراد گوشت کے تین حصّےکرنے کے بجائے زیادہ اور اچھا گوشت خود رکھ لیتے ہیں یا ایسے لوگوںکو بھجواتے ہیں، جن سے اُن کے کچھ مفادات وابستہ ہوں؟‘‘ مفتی صاحب کچھ یوں گویا ہوئے ’’افضل ترین عمل تو یہ ہے کہ قربانی کرنے والا، گوشت کے تین حصّے کر کے ایک حصّہ صدقہ کر دے، یعنی غریبوں، مساکین کو دے دے،دوسرا حصّہ دوستوں، رشتے داروں میں تقسیم کر ے اور ایک حصّہ اپنے پاس رکھے۔ ویسے فتاویٰ کی کتابوں میں درج ہے کہ اگر کوئی ایسا خاندان قربانی کر رہا ہے، جو مالی طور پر مستحکم نہیں یا غریب ہے تو وہ زیادہ گوشت رکھ سکتا ہےاور ضرورت کم ہو تو زیادہ صدقہ بھی کر سکتا ہے،ویسے ہونا تو یہی چاہیے کہ جتنا ہو سکے غربا، مساکین کو گوشت دیا جائے، کیوں کہ امیر تو سارا سال ہی گوشت کھاتے ہیں، لیکن غریب اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ 

سو، اگر آپ کے زیادہ گوشت دینے سے وہ بھی عید کے ایّام اور اس کے بعد کچھ روز تک پیٹ بھر کر کھاناکھاسکیں گے، تو زیادہ اجر و ثواب اوراللہ تعالی کی خوشنودی حاصل ہو گی۔ حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ہم نے ایک بکری ذبح کرکے صدقہ کی ،تو نبی ﷺ نے دریافت کیا’’اس (بکری کے گوشت) سے کچھ بچا ہے؟‘‘ مَیں نے عرض کیا’’ صرف ایک بازو بچا ہے۔‘‘ تو آپ ﷺنے فرمایا’’بازو کے سوا باقی سب بچ گیا ہے۔‘‘ یعنی نبی ﷺ نے اپنے اس فرمان سے کُل امّتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ جو تقسیم ہوگیا، اسے ضایع مت سمجھو کہ دَر حقیقت وہی تو کام آئے گا۔ 

جو اللہ کی راہ میں خرچ ہو، جو اس کی مخلوق کے کام آئے، وہی مال و دولت اخروی زندگی میں ہماری کام یابی کا ذریعہ بنتا ہے۔علاوہ ازیں، گزشتہ چند سالوں سے قربانی کے جانوروں کی نمود نمایش کا رجحان بھی خُوب بڑھ گیا۔ دیکھا گیا ہے کہ با قاعدہ شامیانےاور برقی قمقمے لگائے جاتے ہیں، جانوروں کو خُوب سجایا جاتا ہے،ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیںاور پھر لوگوں کا ایک جمِ غفیر انہیں دیکھنے جاتاہے۔اُن کے ساتھ تصاویر ، سیلفیز لی جاتی ہیں۔ 

لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ فلاں بیل اتنے لاکھ کا ہے، فلاں بکرا بادام کھاتا ہے، فلاں گائے اتنی منہگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس نمایش سےنہ صرف لوگوں میں حسد ،جلن کی بیماری پروان چڑھتی ہے، بلکہ مالی طور پر کم زور لوگوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے، بالخصوص بچّوں میں احساسِ کم تری پیدا ہوتا ہے۔ تمام احادیث کی کتب کا آغاز نبی ﷺ کی معروف ترین حدیث، ’’اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے‘‘سے ہوتا ہے۔ یعنی، جب تک آپ کی نیّت صاف نہیں ہوگی اور دل اطاعتِ الٰہی کے جذبے سے سر شار نہیں ہوگا، تب تک کوئی عمل قبول ہو ہی نہیں سکتا توجس عمل میں اِخلاص نہ ہو، وہ چاہے کوہِ طور کے برابرہو، تب بھی اللہ کے نزدیک ایک چیونٹی کی جسامت کے برابر بھی نہیں۔‘‘

عیدِ قرباں اور ہماری ذمے داریاں
پروفیسر ڈاکٹر غلام علی

بقر عید پر زائد گوشت کے استعمال سے صحت پر مرتّب ہونے والے اثرات کے حوالےسے ہم نےمعروف کنسلٹنٹ فزیشن اور ماہرِ امراضِ معدہ و جگر، پروفیسر ڈاکٹر غلام علی مُندرہ والا سے بات چیت کی، توان کا کہنا تھا کہ ’’عید ِ قرباں کے دِنوں میں اور بعد اَز عید بلڈ پریشر ، یورِک ایسڈ، کولیسٹرول ،ذیابطیس اور اسہال کے مریضوں کی تعدادمیں بے حد اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چوں کہ گوشت میں پروٹینز وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں، تو ہیوی پروٹین کی وجہ سے گُردے متاثر ہوجاتے ہیں اور پھر وہ دیگر بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔اسی طرح کچھ لوگ پیر کے انگوٹھے میں درد یا سُوجن کی شکایت بھی کرتےہیں۔درد کے آغاز پر وہ سمجھتے ہیں کہ عید پر زیادہ کام کرنے کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے، حالاں کہ اس کی وجہ یورِک ایسڈ کا بڑھ جانا ہے، جو زیادہ گوشت کھانے کے سبب ہوتاہے۔

مشاہدے میں ہے کہ بقر عید کے بعد ہارٹ اٹیک کے کیسز بھی زیادہ سامنے آتے ہیں، کیوں کہ گوشت میں موجود چربی کولیسٹرول بڑھاتی ہے، اس سے بلڈ پریشر اور پھر دل کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔ اسی طرح کورونا سے کہیں زیادہ ہلاکت خیزاور خطرناک بیماری ، کانگو وائرس ہے، جس پر آج کل بات ہی نہیں ہو رہی، مگر ہمیں یہ ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بقر عید کے بعد کانگو وائرس کے کیسز بھی سامنے آتے ہیں اور اس بیماری میں مبتلا مریض کسی صُورت نہیں بچتا۔ 

کانگو وائرس جانوروں کی کھال میں پایا جاتا ہے،اس کا کام خون پینا ہے۔ جب قربانی کے وقت جانور کےگلے پرچُھری پھیری جاتی ہے، تو یہ اُڑ کر انسان کو لگ سکتا ہےاوریہ وائرس اس قدر ہلاکت خیز ہے کہ متاثرہ مریض کی سرجری کے دوران ڈاکٹر تک کومتاثر کر دیتا ہے۔اسلام آباد میں مقیم ،ڈاکٹر متین کا شمار نہ صرف پاکستان، بلکہ ایشیا کے بہترین ڈاکٹرز میں ہوتا تھا۔ انہوں نے کانگو وائرس میں مبتلا ایک مریض کی سرجری کی، احتیاطی تدابیر کے طور پر ڈبل گلوز پہنے ہوئے تھے، پھر بھی انہیں یہ وائرس لگ گیا اور وہ جاں بَر نہ ہو سکے۔ اس لیے قربانی کرتے ہوئے اپنے ہاتھ ،پاؤں وغیرہ مکمل طور پرکور رکھیں۔ آج کل ویسے ہی اسپتالوں میں کورونا کی وجہ سے ایمرجینسی نافذ ہے، کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے، تو ایسے حالات میں بے احتیاطی کی وجہ سے اگرآپ کو خدانخواستہ اسپتال جانا پڑا، تو کتنی پریشانی ہو گی کہ وہاں بنا کورونا کا ٹیسٹ کیے کسی مرض کا علاج نہیں ہورہا،تو فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘

عیدِ قرباں اور ہماری ذمے داریاں
ڈاکٹر راشدہ علی

عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ گھروں میں عید کے موقعے پر وافر مقدار میں گوشت فریز کرلیا جاتا ہے، جو سال، چھے مہینے تو ضرور چلتا ہے، تو ’’گوشت کتنے دِنوں تک اسٹور کرنا چاہیے اور فریز کیےہوئے گوشت کے صحت پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں؟‘‘اس حوالے سے ہم نےجامعہ کراچی کےشعبۂ فوڈ سائنس اینڈٹیکنالوجی کی فاؤنڈنگ چیئر پرسن اور جناح یونی وَرسٹی برائے خواتین کے شعبۂ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی سربراہ، ڈاکٹر راشدہ علی سےبات چیت کی، تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ویسے تو اللہ پاک نے قربانی کا صرف ایک تہائی حصّہ ہی اپنے پاس رکھنے کا حکم دیا ہے، تو وہ ایک تہائی زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ ماہ میں ختم ہو ہی جاتا ہے۔ گوشت ہماری غذا کا بہت اہم حصّہ ہے، جس میں اس قدر مفید اجزاء پائے جاتے ہیں کہ اگر یہ کم مقدار میں بھی استعمال ہو، تو بحالیٔ صحت کے لیے کافی ہے۔ یاد رکھیے، جس طرح کسی بھی شئے کا ضرورت سے زائد استعمال نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، اسی طرح کثرت سے گوشت کا استعمال بھی کئی عوارض کا سبب بنتا ہے۔ 

چوں کہ عید الاضحی کے موقعے پر گوشت کی فراوانی ہوتی ہے، تواس کے زائد استعمال کی وجہ سے بعض اوقات کچھ مضر اثرات فوری ظاہر ہوتے ہیں، جو دیرپا بھی ہوسکتے ہیں، تو بعض کیسز میں یہ اثرات کچھ عرصے بعد بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ عیدالاضحی کے موقعے پر گوشت ضرور کھائیں، لیکن اعتدال کے ساتھ۔اب جہاں تک بات ہے گوشت فریز کرنے کی تو یاد رکھیےکہ اسٹوریج ٹائم فریزر کی ٹھنڈک یا کُولنگ پر منحصر ہے۔ یعنی، اگر فریزر بار بار کُھلے یا اس کا ٹیمپریچر کم، زیادہ ہوتا رہے ، تو گوشت بھی جلدی خراب ہوجائے گاکہ فریز کیے ہوئے گوشت میں بیکٹیریاجلدی پیدا ہوتے اور تیزی سے بڑھتے ہیں۔

پھر ایسا گوشت کھانا یقینی طور پر صحت کے لیے بھی انتہائی مُضر ثابت ہوگاماہرینِ اغذیہ کے مطابق ـ’’متوازن غذا وہ ہے، جو ہماری دِن بَھر کی انرجی یا طاقت کی ضرورت کو، غذا کے توانائی دینے والے اجزاء کی مناسب شرح سے پورا کرسکے۔‘‘ یوں تو غذا میں کئی مفید اجزاء شامل ہوتے ہیں، جیسے پانی، وٹامنز اور منرلز وغیرہ، لیکن انرجی صرف تین ہی اجزاء کاربوہائیڈریٹ، پروٹین اور فیٹس فراہم کرتے ہیں۔ متوازن غذا میں ان تینوں اجزاء کی بھی ایک خاص مقدارمقرر کردی گئی ہے۔ یعنی کاربوہائیڈریٹ سے58فی صد، فیٹس سے30فی صد اور پروٹین سے12فی صد انرجی حاصل کی جائے۔

اب پروٹین سے 12فی صد انرجی کا ماخذ گوشت، مرغی، مچھلی، انڈے، دالیں اور میوہ جات ہیں، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانےکے اوقات یعنی صُبح، دوپہر اور رات میں صرف ایک وقت گوشت استعمال کریں، باقی دو وقت کے کھانے میں پروٹین دیگر اجزاء سے حاصل کی جائے۔جیسے دالیں، انڈے اور مچھلی وغیرہ۔ بطور ماہرِ اغذیہ مَیں بس یہی کہوں گی کہ عید خوشی کا موقع ہے، تہوار ہے۔ اس میں خوب انجوائے کریں، کھائیں پئیں، مگر بس اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہر چیز تناسب میں اچھی لگتی ہے اور تبھی فائدہ بھی دیتی ہے۔ اگر آپ عید کے دو دن زیادہ گوشت کھائیں، تو کوشش کریں کہ اگلے تین دن دالیں، سبزیاں وغیرہ استعمال کریں، اس طرح آپ کی ڈائیٹ متواز ن ہوجائے گی۔‘‘

آئیں…اس عید جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنے اندر پلنے والی لا محدود خواہشات، بغض و عناد، کینہ، حسد بھی قربان کردیتے ہیں کہ جب تک ہم اطاعتِ الٰہی نہیں کریں گے، تب تک دنیا میں کام یاب ہوں گے، نہ آخرت میں۔

تازہ ترین