• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی کابینہ سے دو ارکان کے استعفے کو مختلف حلقوں میں مختلف زاویوں سے دیکھا جارہا ہے۔ کہیں انہیں دہری شہریت کی ’’پبلک اسکروٹنی‘‘ کا شاخسانہ ،کہیں منتخب اور غیر منتخب اراکین کے درمیان رسہّ کشی کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ کہیں اس معاملے کو کارکردگی پراطمینان یا عدم اطمینان کی نظر سے اورکہیں سپریم کورٹ کے بعض ریمارکس سامنے رکھ کر دیکھا جارہا ہے۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ وزیراعظم کے دو معاونینِ خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا اور مس تانیہ ایدروس اب کابینہ کا حصہ نہیں ۔ اس تبدیلی کی مبینہ تفصیلات سے یہ بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ عمران خان ملکی مفادات کو بہرطور مقدم رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر مرزا معاون خصوصی برائے صحت کے عہدے سے اپنے استعفے کی وجہ ٹوئٹر پیغام میں یہ بتاتے ہیں کہ کارکردگی پر تنقید مذکورہ فیصلے کی وجہ بنی ان کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کی ذاتی دعوت پر عالمی ادارہ صحت (WHO)چھوڑ کر پاکستان آئے تھے،ایمانداری اور محنت سے کام کیا اور مطمئن ہیں کہ ایسے وقت جارہے ہیں جب کورونا وائرس کے پھیلائو میں کمی آرہی ہے۔ تانیہ ایدروس جو گوگل کی سابق ایگزیکٹو ہیں معاون خصوصی برائے ’’ڈیجیٹل پاکستان‘‘ کے عہدے سے مستعفی ہونے کی وجہ یہ بتاتی ہیں کہ ان کی دہری شہریت پر جو سوالات اٹھائے گئے ان کے باعث ان کا’’ ڈیجیٹل پاکستان‘‘ کا مقصد دھندلا رہا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی کینیڈا کی شہریت کی وجہ اس ملک میں ان کی پیدائش ہے، یہ ان کی چوائس نہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ نجی اور سرکاری شعبوں میں جہاں بھی ممکن ہوا وزیراعظم کے وژن اور پاکستان کے لئے کام کسی عہدے کے بغیر جاری رکھیں گی۔ دوسری جانب بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تانیہ ایدروس کی کمپنی کا قیام سامنے آنے کے حوالے سے تسلی بخش جواب دینے میں ان کی ناکامی موجودہ صورتحال کا سبب بنی۔ بعض ذرائع ڈاکٹر ظفر مرزا کے حوالے سے بھارت سے خام مال کی درآمد میں مس ہینڈلنگ سمیت کئی زاویوں پر زور دیتے ہیں ۔ان وجوہ کی صحت یا عدم صحت کا درست اندازہ کسی سرکاری وضاحت کے بغیر ممکن نہیں۔ تاہم وطن عزیز میں کسی فرد کی آمد و رخصت یا سرکاری اقدام پر توقعات اور مایوسی کےا ظہار میں اعتدال کا فقدان بعض معاملات میں سنسنی خیزیت پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس سے قوم کی اجتماعی کارکردگی سمیت کئی معاملات پر منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے اور ہمیں اپنے انداز و اطوار ہی سےنہیں، تعلیمی نظام کے ذریعے بھی میانہ روی کے رجحانات کے فروغ پر توجہ دینی چاہئے جس کی دینِ متین اسلام تلقین کرتا ہے۔ وزیراعظم اپنی ٹیم میں کوئی تبدیلی لاتے ہیں تو یہ ان کا اختیار ہے مگر فیصلے بالغ نظری سے کئے جانے چاہئیں۔ کسی ایک یا دوسرے اہم ادارے سے اپنے اپنے میدانوں کے ماہر لانے کے یقیناً فوائد ہیں مگر فیصلے اگر عاجلانہ ہوں اور پہلے دن سے ہی کسی ایک یا دوسرے میدان میں انقلاب کا غلغلہ ہو تو بعد میں نتائج کم وقت میں حسب منشا ظاہر نہ ہونے پر مایوسی کی امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی تبدیلی لانے کا عمل ایسے انداز نہیں ہونا چاہئے جس سے تحقیر کا تاثر نمایاں ہو۔ تاہم کرپشن یا بدنیتی کے ثبوت سامنے آجائیں تو بات دوسری ہے۔ ہمیں اپنے اہم فیصلوں اور اقدامات میں پاکستان کے وقار کو بہرطور ملحوظ رکھنا ہوگا۔ جس کی ایک صورت یہ ہے کہ منصوبوں کی خاکہ نویسی کے وقت ہی بہت غوروفکر سے اس میں پیش رفت کے طریقے اور کردار معین کئے جائیں۔ آج کی دنیا میں ہر ملک میں کئے جانے والے ہر عمل اور ہر فیصلے کا عالمی سطح پر تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یہ تجزیہ قوموں کی برادری میں ہمارے مقام کے تعین میں بھی کسی نہ کسی حد تک کردار ضرور ادا کرتا ہے۔

تازہ ترین