• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الحمدللہ بشیر میمن سے تصدیق کی جا سکتی ہے کہ جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ حرف بحرف درست ہے یا نہیں۔ ہوا یوں کہ جج ارشد ملک کے خلاف مریم نواز، شہباز شریف اور پرویز رشید وغیرہ کی پریس کانفرنس کے بعد وزیراعظم عمران نے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو اپنے دفتر طلب کیا۔

ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان وزیراعظم کی معاونت کے لئے ساتھ بیٹھے تھے۔ وزیراعظم نے بشیر میمن کو حکم دیا کہ وہ ارشد ملک کے خلاف پریس کانفرنس کی بنیاد پر مریم نواز اور ان کے ساتھ پریس کانفرنس میں شریک دیگر تمام مسلم لیگی رہنمائوں کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت بغاوت اور غداری کے مقدمات بنائیں۔

ایک ذمہ دار سرکاری افسر کے طور پر بشیر میمن نے وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آرٹیکل چھ لگانا بہت بڑا اقدام ہے اور کسی صورت اس پریس کانفرنس کے نتیجے میں اہم سیاسی رہنمائوں کے خلاف اس کو لاگو نہیں کیا جا سکتا لیکن وزیراعظم پھر بھی ان کو مجبور کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ آخر میں تنگ آکر بشیر میمن نے کہا کہ جناب وزیراعظم! گھنٹوں کی وڈیوز ہمارے ایف آئی اے کے پاس مسلم لیگی رہنمائوں کی نہیں بلکہ جج ارشد ملک کی پڑی ہیں۔ ہم نے تحقیقات کر لی ہیں اور وہ وڈیو شرمناک ہونے کے ساتھ ساتھ جینوئن بھی ہیں۔

قانون کے مطابق اور ہر اخلاقی معیار پر کارروائی جج ارشد ملک کے خلاف ہونی چاہئے لیکن ان کے خلاف کارروائی کے بجائے آپ ہمیں مجبور کررہے ہیں کہ ہم مسلم لیگی رہنمائوں کے خلاف مقدمہ قائم کریں اور وہ بھی آرٹیکل چھ کا۔ بشیر میمن کا جواب سن کر وزیراعظم کا موڈ خراب تو ہوا لیکن باز پھر بھی نہ آئے۔ ان سے کہا کہ کم ازکم خواجہ آصف اور احسن اقبال کے خلاف تو آرٹیکل چھ کا مقدمہ بنا لو۔ بشیر میمن نے کہا کہ سر بنیاد کیا ہوگی؟ تو وزیراعظم صاحب نے کہا کہ ایک وزیر دفاع اور دوسرا وزیر داخلہ تھا لیکن دونوں نے عرب ممالک کے اقامے بھی رکھے تھے۔

یوں یہ لوگ سیکورٹی رسک تھے اور پاکستان میں وزیر رہ کر بھی اقامہ رکھنے کی وجہ سے وہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بشیر میمن صاحب نے انتہائی ادب کے ساتھ جواب دیا کہ سر! یہ زیادہ سے زیادہ نامناسب فعل ہو سکتا ہے اور آپ نیب یا کسی عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں لیکن اس بنیاد پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ بنانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ یہ جواب سن کر وزیراعظم صاحب غصے میں آگئے اور سعودی عرب کی مثالیں دے کر کہنے لگے کہ دیکھیں وہاں کی حکومت اپنے مخالفین کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرتی لیکن میرے ادارے اگر مگر کا سہارا لے کر میرے ساتھ تعاون نہیں کررہے ہیں۔ اس انکار کی بنیاد پر اگلے روز بشیر میمن کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا۔

اس واقعے کو یہاں دہرانے کا مقصد فقط یہ تھا کہ پاکستان کے اندر دہری شہریت کو کسی اور نے نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی اور اس کے سرپرستوں نے سب سے اہم ایشو بنا دیا ہے۔ غیرملکی شہریت رکھنا کوئی جرم نہیں بلکہ وہ پاکستانی جو روزگار، تعلیم یا کسی اور عذر کی وجہ سے غیرملکی شہری بنے ہیں اور پاکستان کی عزت یا اس کے لئے زرمبادلہ بھیجنے کا موجب بن رہے ہیں، وہ سب لوگ پاکستان کے محسن ہیں۔

میں نے خود دیکھا اور محسوس کیا ہے کہ عموماً بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے ملک کے لئے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔ میں نے خود بہت سارے دہری شہریت کے حامل لوگوں کو پاکستان میں مقیم لوگوں سے زیادہ محب وطن پایا ہے اور بعض لوگوں کو غیرملکی شہری نہ ہو کر بھی پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہاں جہاں تک قانون کا تعلق ہے تو پاکستان کے قانون میں کوئی رکن پارلیمنٹ غیرملکی شہری نہیں ہو سکتا تاہم ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ سینکڑوں بیوروکریٹس، ان کے اہلِ خانہ اور کئی جرنیل صاحبان کے بچے غیرملکی شہریت کے حامل ہیں۔

میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو غیرمحب وطن سمجھتا ہوں اور نہ غیرملکی شہریت لینے کو عیب لیکن میرا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ جو لوگ غیرملکی شہریت کے حامل ہوں، وہ پھر پاکستان میں ذمہ دار پوزیشن لینے سے باز رہیں۔

ممبران پارلیمنٹ کے لئے تو دہری شہریت ممنوع ہے لیکن انتہائی حساس اور ذمہ دار جگہوں پر بیٹھے ہوئے بیوروکریٹس یا ان کے اہلِ خانہ غیرملکی شہری ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ ہے اور ماضی میں جرنیل اور بیوروکریٹس تک غیرملکی ایجنسیوں کے لئے کام کرتے ہوئے دھر لئے گئے ہیں تاہم پی ٹی آئی کی قیادت نے ہی اس ایشو کو سیاستدانوں تک خاص کردیا اور اس ملک کے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کو ایک دوست ملک کے اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دلوا دیا گیا لیکن جب اپنی باری آئی تو اہم مناصب غیرملکی شہریوں کو عنایت کر دیے۔

اور تو اور انیل مسرت جیسے انڈینز کے ساتھ قربت رکھنے والے مشکوک لوگ بھی وزیراعظم ہائوس کے اہم اجلاسوں میں شرکت کرتے نظر آئے۔

اب دہری شہریت کے حامل مشیر اور معاونینِ خصوصی میڈیا پر برہم ہیں حالانکہ میڈیا تو گزشتہ دو سال سے مثبت رپورٹنگ پر مجبور ہے اور یہ ایشو بھی میڈیا نے نہیں بلکہ خود خان صاحب کی کابینہ کے وزیر غلام سرور خان نے اٹھایا۔

طرفہ تماشہ یہ ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی وزیراعظم کے نزدیک غیرملکی اقامہ رکھنا اتنا سنگین جرم ہے کہ وہ اس کی بنیاد پر خواجہ آصف اور احسن اقبال کے خلاف غداری کا مقدمہ بنانا چاہتے ہیں لیکن غیرملکی شہریت کے حامل اپنے لاڈلوں کو اہم ترین پوزیشنوں پر بٹھا رکھا ہے۔ سیاسی مخالفین کے لئے صرف اقامہ بھی جرم ہے لیکن اپنے لاڈلوں کے لئے مکمل سٹیزن شپ بھی جرم نہیں بلکہ اعزاز ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک کا اقامہ گناہ عظیم ہے لیکن امریکہ اور برطانیہ کا شہری ہونا اعزاز ہے۔ یہ ہے تحریک انصاف کا انصاف۔

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

تازہ ترین