• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محققین معاشروں میں نفرت،تنگ نظری اور تعصبات پروان چڑھنے کی ایک اہم وجہ نصابی کتب بتاتے ہیں۔ ہندوستان، پاکستان، اسرائیل، ترکی، شمالی اور جنوبی کوریاخاص طور پر وہ ممالک ہیں جہاں نوجوان نسل کو نصابی کتب کے ذریعے تعصب اورنفرت کی آگ میں پروان چڑھایا جا رہا ہے۔یہاں جنوبی افریقہ کا ذکر کرنا بڑا ضروری ہے جہاں نسلی تعصب کے خاتمے کے بعد نصابی کتب نئے سرے سے لکھی گئیں کیونکہ ان کا مقصد ایک ایسی قوم کو ارتقا پذیر کرنا تھا جہاں سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ محبت ،انصاف اور رواداری کے ساتھ رہ سکیں۔تاریخ شاہد ہے کہ وہی معاشرے شعوری ترقی کر پاتے ہیں جو رنگ ،ذات اور عقائد کی قیود سے ماورا ہو کر قوم کی تشکیل کرتے ہیںاسی لیے کہتے ہیںعلم جہاں سے ملے اسے حاصل کرنے کی جستجو کرنی چاہئے۔ پاکستان میں اس کے بالکل برعکس، برسر اقتدار آنے والی مختلف حکومتوں نے علم کی وسعت کو محدود کرکے اسے نظریہ اورعقائد کے رنگ میں پرونے کی کوشش کی ہے ۔جس سے طالب علموں پر ایسا نظریاتی بوجھ پڑتا ہے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوکر رہ جاتی ہیں۔ہندوستان میں بھی ہندو انتہا پسندوں نے ویدک علم کو اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے کی سعی شروع کر رکھی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ اکیسویں صدی میں ریاستی نظریے کو تقویت پہنچانے کی بجائے نئی تحقیق کو بنیاد بنا کر نصاب کی تیاری کو رواج دیا جائے۔یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میںہر سمسٹر کا نصاب علیحدہ ہوتا ہے اور نئی تحقیق کے سامنے آنے کے ساتھ ساتھ نصاب بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے کیونکہ نصاب کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے اور چونکہ معاشرے کی ضروریات برابر بدلتی رہتی ہیں اس لیے نصاب بھی برابر بدلتا رہتا ہے۔اگر نصاب زماں و مکاں کی شعوری آگاہی دینے سے قاصر رہتا ہے تو اس صورت میں علم اور سماج میں کوئی رشتہ نہیں بن پاتا اور یوں رفتہ رفتہ علم فرسودہ ہوتا جاتا ہے اور اس کے پڑھنے والے ذہنی طورپر جمود کا شکار ہو کر ناکارہ ہوجاتے ہیں۔

تحریک انصاف نے الیکشن سے پہلے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا جس میں تعلیم،صحت،روزگاراور ٹرانسپورٹیشن کو ریاستی ذمہ داری میں لینے کا وعدہ شامل تھا۔تعلیم کے شعبے میں تحریک انصاف نے وعدہ کیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل25-Aکے عین مطابق تمام بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے گالیکن افسوس کی بات ہے کہ آج بھی یونیسف کی تحقیق کے مطابق تقریبا دوکروڑ بیس لاکھ سے زائد بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت تعلیم کا بجٹ بڑھا کر ان بچوں کے لیے اسکول تعمیر کراتی لیکن اس نے اقتدار میں آتے ہی صدارتی نظام کی بحالی کی کوششیں شروع کردیں۔اپوزیشن کا موقف ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی بدولت جو صوبائی خودمختاری حاصل کی گئی ہے اس کو ختم کرنے کی ہر ممکن سعی کی جارہی ہے اور یہ یکساں تعلیمی نصاب کی جستجو بھی اسی جانب ایک قدم ہے کیونکہ اس نصاب کے بنیادی مقصد کے طورپر کہا گیا ہے کہ ایک قوم کے لیے ایک ہی تعلیمی نصاب ہونا چاہیے۔یہ بنیادی مقصد اٹھارویں ترمیم سے متصادم ہے۔یادرہے وفاقیت پاکستانی آئین کا ایک لازمی جزو ہے جس کے مطابق یہاں مختلف قومیں ہزاروں سال سے اپنی زبان،ثقافت، جغرافیے اور تہذیب و تمدن کے ساتھ آباد ہیں اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا نصاب فطری اور لازمی اجزائے ترکیبی ،ان قوموں کی باہمی رضامندی اور سودوزیاں کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے۔مضبوط مرکز کی بجائے مضبوط پاکستان کا ہونا لازمی ہے۔اگر آپ مضبوط مرکز کے نام پر پاکستان میں رہنے والی قوموں سے ان کے اختیارات چھیننے کی کوشش کرتےہیں تو اس سے بد اعتمادی کی آبیاری ہو سکتی ہے۔ یکساں تعلیمی نصاب کی بدولت تحریک انصاف کی حکومت ایک مضبوط مرکز کی طرف تو گامزن ہوسکتی ہے لیکن اِس قدم سے مضبوط پاکستان کا حصول شاید ممکن نہیں ۔پاکستان کا نصاب ایک ایسے چمن کی مانند ہونا چاہئے جہاں مختلف پھول، الگ خوشبوئوں اور رنگوں کے ساتھ چمن کی رونق میں اضافہ کررہے ہوں۔تعمیری تعلیمی نصاب میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ بچے کو خاندان، گلی، محلے، شہر، ضلع و صوبائی رواج و ثقافت سے روشناس کراتے ہوئے مرکزی قومیت سے مربوط کرتا ہے ۔یاد رہے تہتر سال سے پاکستان میں دو قومی نظریے کے سائے تلے ایسے ہی تعلیمی نصاب و سوچ کی ترویج کی گئی ہے اسی وجہ سے آج دوسرے صوبوں کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء کی اکثریت کو بلوچستان کے تین شہروں کے نام تک معلوم نہیں ۔ نصاب کی کتابیں دراصل کسی بھی معاشرے کی ثقافت کو سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہیں یہ محض نصابی کتب ہی نہیں ہوتیں بلکہ اہل اقتدار اور حکمران طبقوں کے خیالات و نظریات کی بھی عکاس ہوتی ہیں کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو کیسے تہذیبی شعور سے آشنا کرانا چاہتے ہیں۔تحریک انصاف کا یکساں تعلیمی نصاب کا تصور پاکستانی نوجوانوں کو ہر قسم کے ارتقائی شعور سے دور کرنے کا سبب بن سکتا ہے اور پاکستان میں موجود ہر عوامی دانشوروں کو ریاستی دانشوروں کی ان کاوشوں کا حقائق اور دلائل سے مقابلہ کرنا ہو گا تاکہ پاکستان بھی اکیسویں صدی میں علم کے زیور کے ساتھ مزین ہو نہ کہ رجعت پسندی ،نفرت و تعصب کے گھپ اندھیروں کا شکار ہوجائے ۔

تازہ ترین