برطانیہ کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے اعلان کیا ہے کہ یکم جنوری 2021سے حکومت ہانگ کانگ کے تین ملین افراد کو برطانوی شہریت دے گی اور یہ اپلائی کرنے والے لوگ ہر قسم کی شرائط سے مستثنیٰ ہوں گے۔ وزیراعظم بورس جانسن نے بھی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ ہم ایسا قدم اس لئے اٹھا رہے ہیں کیونکہ چین ہانگ کانگ میں ’’نیشنل سیکورٹی قوانین‘‘ نافذ کرکے ’’سینو برٹش جوائنٹ ڈکلیئریشن‘‘ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔ اب یہ قومی سلامتی کا قانون اور سینو ڈکلیئریشن کیا ہے، چین اور برطانیہ کا اس میں کیا تنازع ہے؟ وزیراعظم برطانیہ کہتے ہیں کہ چین کی طرف سے یہ قانون ہانگ کانگ میں شہری آزادیوں پر ایک کاری ضرب ہے جبکہ چین کا یہ موقف ہے کہ مذکورہ قانون غداری، علیحدگی، بغاوت کے خلاف ہے اور اس قانون میں سات آرٹیکل شامل ہیں۔ چین کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہم دونوں انتظامی خطوں میں قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے مربوط قانونی نظام اور ان پر عملدرآمد کا طریقہ کار نافذ کریں گے اس سے ہمیں ہانگ کانگ میں ہونے والی غیرقانونی سرگرمیوں سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔ برطانیہ کا موقف ہے کہ 19دسمبر 1984کو برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر اور چینی وزیراعظم زوژنگ کے درمیان ’’سینو برٹش جوائنٹ ڈکلیئریشن‘‘ پر دستخط ہوئے تھے جس کے مطابق خارجہ اور دفاعی امور کے علاوہ ہانگ کانگ کو اگلے پچاس سال تک بڑی حد تک خودمختار حیثیت حاصل رہے گی چنانچہ یہ معاہدہ 2047میں ختم ہو جائے گا لہٰذا اس معاہدے کے تحت 1997میں برطانیہ نے 150 سال بعد ہانگ کانگ چین کے حوالے کر دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگر چین مذکورہ معاہدے سے انحراف کرتا بھی ہے تو برطانیہ کو اس قدر ’سیخ پا‘ ہونے کی کیا ضرورت ہے اور طرہ یہ کہ حیران کن حد تک برطانیہ ہانگ کانگ کے تقریباً تین ملین باشندوں کو بغیر کسی شرط کے اپنی شہریت بھی دے رہا ہے؟ بظاہر تو برطانیہ کا استدلال ہے کہ مذکورہ قانون کے نفاذ کا مطلب ہانگ کانگ کی بنیادی شہری آزادیاں ختم کرنا ہے لیکن درون خانہ صورتحال یوں ہے کہ برطانیہ پچھلے 23سال سے ہانگ کانگ پر اپنا 150سالہ تسلط بھلا نہیں پایا۔ برطانیہ نے فوری طور پر ہانگ کانگ کے ساتھ تحویل مجرمان کا معاہدہ بھی ختم کر دیا ہے۔ چین نے بھی برطانیہ کو ہانگ کانگ کے معاملات میں دخل اندازی کرنے پر وارننگ اور سخت و سنگین کارروائی کی دھمکی دی ہے، اسی ضمن میں برطانیہ نے چین کی فائیو جی ٹیکنالوجی پر اپنے ملک میں پابندی لگا دی ہے۔ برطانیہ اور امریکہ ہی نہیں پورا مغرب اس وقت چین پر غصہ کھائے بیٹھا ہے لیکن سب سے زیادہ برطانیہ ہے جسے چین کی خوشحال معیشت اور اس کی بڑھتی ہوئی جغرافیائی حدود نے بےچین کر رکھا ہے۔ اس کی پہلی بڑی وجہ تو ہانگ کانگ کا برطانوی ’ہاتھ‘ سے پھسل جانا ہے حالانکہ ہانگ کانگ دو ہزار سال پہلے سے چین کا حصہ تھا لیکن 1839سے لے کر 1860تک ان دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی دو جنگوں کے بعد ہانگ کانگ ایک زبردستی کے معاہدے کے تحت برطانیہ کی کالونی بن گیا اور اب جبکہ چین نے اپنا یہ علاقہ واپس لے لیا ہے تو برطانیہ اس ’واقعہ‘ کو آسانی سے بھول نہیں پا رہا۔
برطانیہ اور چین کی مخاصمت کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ان دونوں ممالک کے مابین جنگوں کی تاریخ یوں ہے کہ 1800میں چین کی حکومت نے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت ملک میں افیون کی تجارت ہر طرح کے مقاصد کیلئے ممنوع قرار دے دی گئی لیکن چونکہ اس کی تجارت غیرملکیوں کیلئے بڑی منافع بخش تجارت تھی اور برطانیہ اپنے اس منافع سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا اس لئے اُس نے صرف افیون بیچنے کیلئے چین کے ساتھ دو جنگیں لڑیں جنہیں ’پہلی جنگ ِ افیون‘ اور ’دوسری جنگ ِ افیون‘ یا ’ایرو وار‘ بھی کہا جاتا ہے چنانچہ 1842میں پہلی جنگِ افیون کے بعد ہی ایک زبردستی کے معاہدہ کے تحت ہانگ کانگ برطانیہ کی کالونی بن گیا۔ چین جو اپنا ریشم اور مسالا جات کے عوض اسپین، امریکہ اور برطانیہ کی منڈیوں کو فروخت کرتا تھا اور تجارت کا توازن بھی چین کے حق میں جا رہا تھا افیون وہ واحد نشہ تھا جو دنیا کی کسی بھی آبادی میں راتوں رات اپنی مارکیٹ بنا سکتی تھی۔ ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ جو ہندوستان پر بھی قابض تھی اسے یہاں سے ہر سال افیون کے وسیع تر ذخائر حاصل ہوتے تھے۔ چین کو مجبور کیا گیا کہ وہ چاندی کے بدلے افیون خریدے لیکن چین کا حکمران اپنی قوم کو اس نشہ سے بچانا چاہتا تھا اس نے جب انکار کیا تو اس پر جنگ مسلط کر دی گئی!! چنانچہ برطانیہ کی جدید طرز کی توپوں نے چین کی خوشحالی کو شکست دے دی یعنی کمال کی بات تو یہ ہے کہ آج جو قومیں منشیات کو اپنے عوام کے لئے زہر قاتل سمجھتی ہیں آج سے دو صدیاں پہلے چین میں افیون بیچنے سے روکنے پر جنگیں کر رہی تھیں، تب دنیا میں بردہ فروشی اور غلاموں کی فروخت بھی برطانیہ، امریکہ اور یورپی قوموں کا پرائم بزنس ہوا کرتا تھا۔ چین مفتوح ہوا تو اس کے شہروں میں غربت اور بے غیرتی بیک وقت وبا بن کر آئے۔ بردہ فروش آتے اور چینی دوشیزائوں کو خرید کر امریکی منڈیوں میں بیچ دیا جاتا۔ چین کے ساحلوں پر قبضہ کر لیا گیا، برطانیہ نے ہانگ کانگ کو مالِ غنیمت کے طور پر ہتھیا لیا اور چین کی ایک محنتی اور خوددار قوم کو افیونچی گروہ میں تبدیل کر دیا لہٰذا یہ وہ مختصر حقائق ہیں جن کی بنا پر ہانگ کانگ کا چین کے پاس واپس جانا برطانیہ کیلئے ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔