• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دارالعلوم الاسلامیہ لاہور کے چمن زار میں ایک روح پرور تقریب کا آغاز ہو چکا تھا اور میرے حافظے کی سکرین پر نصف صدی قبل کا منظر نامہ اُبھر آیاجس میں تاحدِ نظر ریت کے ٹیلے پھیلے ہوئے تھے۔ وہ علاقہ جہاں علامہ اقبال ٹاوٴن میں کامران بلاک آباد ہے  وہاں 1960ء میں کالی اور سرخ آندھیاں چلتی تھیں اور دور دور تک آبادی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ ایسے میں کچھ دوست جن کا جامعہ اشرفیہ کے علماء اور اساتذہ کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا تھا  اُنہوں نے ”طیب آباد“ کے نام سے بستی آباد کرنے کا ارادہ کیا اور زمین کا ایک قطعہ بھی خرید لیا۔ اِن جواں ہمت لوگوں میں میرے تایا زاد بھائی جناب شیخ عبد الحفیظ (مرحوم) بھی شامل تھے۔ وہ اُن دنوں محکمہٴ انہار میں ہیڈ ڈرافٹس مین تھے اور منگلا ڈیم کے سروے اور ابتدائی ڈیزائننگ میں حصہ لے چکے تھے۔قیامِ پاکستان کے وقت اُنہوں نے اپنے رب سے عہد کیا کہ وہ رزقِ حلال کمائیں گے اور نئی مملکت کی اسلامی خطوط پر تعمیر کے لیے مقدور بھر کوشش کریں گے۔ الحمد لله وہ تمام تر دشواریوں کے باوجود زندگی بھر اپنے عہد پر قائم رہے اور الله تعالیٰ نے اُن کی حلال کمائی سے پرورش پانے والی اولاد کو عظیم نعمتوں سے نوازا اور میری بہن جو اُن کے عقد میں آ چکی تھیں  اُس نے بڑی استقامت سے اپنے شوہر کے ساتھ رفاقت کا حق ادا کیا۔
ناسازگار حالات کی وجہ سے طیب آباد کا منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا  البتہ اِسی علاقے میں اہلِ ہمت نے دارالعلوم الاسلامیہ کی عمارت تعمیر کرنے کا خواب دیکھا۔ اِس خواب کو عملی جامہ پہنانے میں جناب شیخ عبدالحفیظ نے دن رات کام کیا۔ قاری احمد میاں تھانوی کی معیت میں وہ رضاکارانہ طور پر اِس کی ڈیزائننگ اور تعمیرمیں سخت موسم کے باوجود رات دن کام کرتے رہے اور یوں 1966ء کے لگ بھگ مسجد اور درس گاہ کی ایک سادہ اور کشادہ عمارت تعمیر ہو گئی۔ دراصل یہ دارالعلوم شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کے ایما پر 1948ء میں کرائے کی عمارت میں قائم ہوا تھا جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں قائد اعظم کے شانہ بشانہ کام کیا تھا اور پاکستان کی سب سے پہلی پرچم کشائی کا اُنہیں اعزاز حاصل ہوا تھا۔ یہ عظیم الشان ادارہ ترقی اور توسیع کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد آج ایک نئے انقلاب آفریں تجربے کا ثمر ہمارے سامنے پیش کر رہا تھا۔
اسٹیج پر تین مایہ ناز جج صاحبان تشریف فرما تھے۔ سابق صدرِ پاکستان جناب جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ  جناب جسٹس (ر) محمد خلیل الرحمن اور جناب جسٹس (ر) منظور حسین سیال۔ اُن کے ساتھ دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا مشرف علی تھانوی  دارالعلوم کے روحِ رواں قاری احمد میاں تھانوی اور نگران وزیرِ قانون پنجاب جناب شمس محمود مرزا رونق افروز تھے۔ تقریب کا بنیادی مقصد اُن بیس طلبہ میں لیپ ٹاپ اور قیمتی کتب تقسیم کرنا تھا جو دارالعلوم الاسلامیہ سے درس نظامی اور گریجوایشن کرنے کے بعد لاہور کے تین لا کالجوں میں ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے جس کی ضرورت کا شدید احساس قیامِ پاکستان سے پہلے ہی اہلِ فکر و نظر میں موجود تھا۔ ہمارے مفکرین اِس امر پر زور دیتے رہے کہ ایسے افراد تیار کیے جائیں جو دینی اور عصری علوم کے یکساں ماہر ہوں اور زندگی کے ہر شعبے کو اسلامی سانچے میں ڈھال سکیں اور تحقیق اور تفتیش کے ذریعے قرآن و سنت کی روشنی میں پیچیدہ عصری مسائل کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔ دارالعلوم الاسلامیہ نے اِس منزل کی طرف بہت بڑا قدم اُٹھایا ہے اور یہ امکان پیدا ہو چلا ہے کہ مفتی اور قاضی ایک دوسرے کے ہم سفر ہوں گے۔
اِس عظیم خیال کو عملی جامہ پہنانے میں جناب جسٹس خلیل الرحمن نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اُنہوں نے پیش کش کی کہ دینی مدارس سے گریجوایٹ کرنے والے طلبہ کو وہ لا کالجوں میں داخلہ اور اسکالر شپس کا انتظام کر سکتے ہیں  چنانچہ دارالعلوم الاسلامیہ نے تجربے کے طور پر بیس طلبہ فراہم کیے جو اب پاکستان لا کالج  پنجاب لا کالج اور قائد اعظم لا کالج میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اُنہیں عربی زبان پر عبور حاصل ہے اور انگریزی زبان میں بھی وہ اپنی استعداد میں حیرت انگیز طور پر اضافہ کر رہے ہیں۔ پنجاب لا کالج سے پروفیسر جناب خالد حسین نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ہمیں اِس خوشگوار حیرت سے سرشار کر دیا کہ دارالعلوم کے طلبہ بڑے ذہین  بلا کے نکتہ سنج اور محنت شعار ہیں۔ اِن طلبہ کی رہائش اور کفالت دارالعلوم کے ذمے ہے جبکہ جدید تعلیم کی جملہ سہولتیں لا کالج فراہم کر رہے ہیں۔ دونوں طریق ہائے نظام کے امتزاج سے ایک نیا کلچر وجود میں آ رہا ہے اور ذہنی مطابقت کے ایقان افروز مناظر اُبھرنے لگے ہیں۔
دارالعلوم الاسلامیہ کے منتظمین جو ایک واضح ویژن اورایک متعین مشن رکھتے ہیں  وہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے عصری علوم کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ بہت پہلے شروع کر دیا تھا اور یہاں کے طلبہ بی اے کے علاوہ ایم اے اور دوسرے علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے لگے تھے اور کمپیوٹر کی تعلیم و تربیت بہت پہلے شروع ہو چکی تھی۔ یہاں چودہ سو طلبہ زیرِ تعلیم ہیں جن پر سالانہ تین کروڑ روپے خرچ آتے ہیں۔ اتنی بڑی رقم مخیر حضرات بڑے اہتمام اور کسی نام و نمود کے بغیر فراہم کرتے رہتے ہیں۔ باہمی اعتماد کا رشتہ  تعلیم کے اعلیٰ معیار اور مالی معاملات میں غیر معمولی شفافیت کی بدولت قائم ہوا ہے۔ دارالعلوم الاسلامیہ کا ماحول نہایت صاف ستھرا اور دلکشا ہے اور اساتذہ الله کی رضا کے لیے بڑی دلجمعی سے پڑھاتے ہیں۔
جناب جسٹس خلیل الرحمن زبردست صلاحیتوں اور غیر معمولی قوتِ ارادی کے مالک ہیں۔ اُنہوں نے 2000ء میں جاری ہونے والے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا جو اُس وقت عدالت ِعظمیٰ کے فاضل جج تھے۔ وہ فلسفیانہ مباحث میں اُلجھنے کے بجائے عمل پر یقین رکھتے اور ایسے اقدامات کے بارے میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں جن سے معاشرے میں حقیقی انقلاب آسکے۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جو جنوبی پنجاب کے کسانوں کو زمینداروں کے چنگل سے آزاد کرنے کے علاوہ  اُنہیں اپنے پاوٴں پر کھڑا ہونے کا نظام فراہم کرتا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف نے چار اضلاع ۔۔۔ مظفر گڑھ  راجن پور  بہاولپور اور بہاولنگر میں سرکاری زمین فراہم کی ہے۔ اِن چار اضلاع میں آٹھ سائٹس کا انتخاب کیا گیا جہاں سڑکیں  مسجدیں  کمیونٹی سنٹر تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ منصوبے کے تحت ایک خاندان کو چار کنال زمین دی جا رہی ہے۔ پانچ مرلے پر مکان تعمیر کیا جائے گا جبکہ باقی 35مرلوں میں سبزیاں کاشت یا مرغیاں پالی جا سکیں گی۔ مکان کے لیے پندرہ ہزار روپے ایک خاندان کو دیے گئے ہیں۔ اب تک ہاریوں میں ڈیڑھ ہزار کنال تقسیم کیے جا چکے ہیں جس کے نتیجے میں خود انحصاری کا انقلاب اُمڈا چلا آ رہا ہے۔اِسی طرح اسلامی فلاح و بہبود کے فیوض و برکات عام شہری تک پہنچنے لگے ہیں۔
ہمیں اُمید ہے کہ دوسرے دینی مدارس بھی اِس انقلاب آفریں تجربے میں شامل ہونے میں لیت و لعل سے کام نہیں لیں گے اور عصری تقاضوں کو بھی بنیادی اہمیت دیں گے۔ دینی اداروں کے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ مفید شہری بنانے اور اُن کی صلاحیتوں کو جِلا دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ دین اور دنیا کے معاملات میں دورنگی کے بجائے ہم آہنگی پیدا ہو اور دینی علوم سے بہرہ ور نوجوان ایک قائدانہ کردار ادا کر سکیں اور نعروں کے بجائے معاشرے میں ایک مثبت اور حقیقی تبدیلی کی خوشبو پھیلتی چلی جائے۔
تازہ ترین