• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بولٹن کی ڈائری ۔۔۔ابرار حسین
بولٹن برطانیہ کا سب سے بڑا ٹائون ہے جس کے باعث اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس ٹائون میںپاکستانی اور کشمیریوں کی آمد کی اپنی تاریخ ہے بتایا گیا ہے کہ بولٹن میںسب سے پہلا مسلمان 1923ء کی دہائی میںڈاکٹر احمد دین کے نام سے یہاںآکر آباد ہوا کمیونٹی خدمات کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان سوسائٹی کے نام سے 1950ء کی دہائی میں ایک تنظیم قائم کی جو عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی قائم ہے۔ ڈاکٹر احمد دین کا وصال 1978ء کی دہائی میںہوا جس کے فوراً بعد پاکستان سوسائٹی کا تمام تر سلسلہ کشمیری رہنما حاجی راجہ محمد انور خان کو سونپ دیا گیا تقریباً 12سال تک وہ اس کے صدر رہے۔ 1990ء میںانہوں نے معروف برطانوی بیرسٹر چوہدری مختار حسین (کیو سی) کی نگرانی میںباقاعدہ انتخابات کرائے جس میں چوہدری محمد اکرم صدر منتخب ہوئے، 5سال کے بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ 1995ء میں راجہ محمد اسحاق کو اس کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں اسی دوران سوسائٹی کی قیادت کے سلسلے میں بعض منفی سرگرمیاں شروع ہوگئیں جس سے میرپوری اور گجرات کے نام سے کمیونٹی تقسیم ہونا شروع ہوگئی، گروپوںکے آمنے سامنے آنے سے معاملات کشیدگی کی حد تک پہنچ گئے جس پر کمیونٹی کی دو بڑی اور اہم شخصیات حاجی شیخ محمد لطیف مرحوم اور چوہدری حاجی منشی مرحوم نے دونوں گروپوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو ختم کرنے میںکامیاب ہوگئے مگر چنگاری ابھی بھی باقی تھی جس کے نتیجے میںایک الگ تنظیم پاکستان ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نام سے وجود میںآگئی جس کیلئے پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے چوہدری محمد حنیف کو صدر منتخب کرلیا گیا اس دوران کونسل کی جانب سے فنڈنگ کی نوید سنائی دینے لگی لیکن بدقسمتی سے پاکستان سوسائٹی اور پاکستان ویلفیئر ایسوسی ایشن کی کوئی واضع حکمت عملی اور پاکستانی و کشمیری کمیونٹی کی صفوں کی ترتیب درست نہ ہونے کے باعث وہ اپنا کیس کونسل میں بہتر طور پر پیش نہ کرسکی جبکہ صومالیہ کمیونٹی کے اس وقت بولٹن میںصرف 21گھرانے آباد تھے جنہوںنے اپنے سینٹر کیلئے کونسل کو درخواست دے رکھی تھی اور انہوں نے اپنا کیس بہترین حکمت عملی کے ساتھ کونسل میں پیش کیا جس کے نتیجے میںکونسل نے یہ فنڈنگ صومالیہ کمیونٹی کو دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جو کہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کی ایک کثیر تعداد ہونے کے باوجود وہ کامیابی حاصل نہیں کرپائیں اور اس طرحصومالیہ کمیونٹی نے اس فنڈنگ سے بولٹن ٹائون سینٹر میںایک سینٹر بنانے کیلئے عمارت خرید لی۔ 2000ء کی دہائی میں ایک بار پھر پاکستان سوسائٹی کا معاملہ طول پکڑ گیا اور کمیونٹی رہنمائوں کے فیصلہ کے مطابق اس کا نظم و نسق چلانے کیلئے کشمیری رہنما سالار ممتاز احمد چشتی کو اس کا صدر منتخب کیا گیا مگر بدقسمتی سے ان کی صدارت میںبھی کوئی مثبت سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہیں اور وہ پاکستانی اور کشمیری سیاست میںتو اپنی توانائیاں خرچ کرتے رہے جس سے یہ سوسائٹی ٹھپ ہوکر رہ گئی توکچھ عرصہ گزرنے کے بعد پاکستان سوسائٹی کے سابق صدر حاجی راجہ محمد انور خان مرحوم نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ سوسائٹی کو چلانے کیلئے تعلیم یافہ نوجوانوں کو سامنے لایا جائے جس پر بیرسٹر ہارون الرشید، سید مکی شاہ ایڈووکیٹ، ڈاکٹر غلام سرور اشرف اور کئی دوسرے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اس میں شامل کیا گیا ابتدائی دو سال میںانہوںنے اسے چلانے کی بھرپور کوشش کی مگر بیرسٹر اور وکلاء کی اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے باعث وہ اسے ٹائم نہ دے سکے اور یوںکمیونٹی کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ آہستہ آہستہ وقت گزرتا چلا گیا اب یہ سوسائٹی تقریباً گزشتہ 18سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اوراس کو چلانے والا کوئی موجود نہیں نوجوانوں نے ایک کام ضرور کیا تھا کہ پاکستان سوسائٹی اور پاکستان ویلفیئر ایسوسی ایشن کو ایک دوسرے میںضم کر لیاتھا اور اس طرح اس کا نام باقی ہے وجود نہیں۔ اس تناظر میںاگر بولٹن کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقائق ہمارے سامنے ہیں کہ یہاں کونسل میںپاکستان کمیونٹی کی نمائندگی ہونے کے باوجود آج کا نوجوان مشکلات کا شکار ہے اسے اپنی سیاسی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کیلئے نہ تو اس کے پاس کوئی کمیونٹی سینٹر موجود ہے اور نہ ہی کھیلنے کیلئے کوئی میدان دستیاب ہے۔ اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو بھارت نژاد مسلمانوں اور ہندو کمیونٹیز کے پاس کمیونٹی سینٹروں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کیلئے ڈب ہل کرکٹ گرائونڈ اور ہندو کمیونٹی کے نوجوانوں کیلئے ڈریسی لیور کرکٹ گرائونڈ موجود ہیں۔ بولٹن کی پاکستانی کمیونٹی کا ایک اہم خلا پاکستانی کمیونٹی سینٹر کا قیام بلکہ ایک دیرینہ خواب رہا ہے جو بولٹن میں بسنے والے پاکستانی کمیونٹی کے باشندوںکی ضروریات کا تقاضہ ہے مگر کمیونٹی کی اس اہم ضرورت سے اس ٹائون کی سیاسی قیادت کی سوچ اور عمل میںہم آہنگی نہیںپائی جاتی جس کے باعث یہ بات انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ بولٹن میںسیاسی سماجی اور مذہبی تنظیموں نے آئندہ نسل کیلئے کوئی مثبت کام نہیں کیا اور آج کا نوجوان اپنی شناخت کے علاوہ سوسائٹی میںاپنا مقام حاصل کرنے کیلئے پریشان ہے نارتھ ویسٹ کا ایک اہم ترین ٹائون بولٹن اندر ہی اندر انڈین اور پاکستانی اقلیتوں کے درمیان تقسیم ہوچکا ہے اور یہ تقسیم آہستہ آہستہ انتہائی گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ بولٹن کی سیاسی سماجی اور ثقافتی تنظیموں نے اگر موجودہ صورتحال پر غور نہ کیا تو آئندہ نسل کیلئے تباہی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔ بولٹن کے پاکستانی اور کشمیری کونسلر اور دیگر بااختیار احباب یوںلگتا ہے کہ لمبی تان کر سونے کی گولیاں کھا رکھی ہیں اور انہیں کبھی جگانے کی کوشش کی جائے تو وہ ایک لمبی آہ بھر کر دوبارہ سو جاتے ہیں۔ بولٹن سے چند میل کے فاصلے پر واقع راچڈیل پر جب ایک طرانہ نظر ڈالیں تو وہاں پر کمیونٹی لیڈرشپ اس لحاظ سے فعال اور توانا نظر آتی ہے راچڈیل میںبرطانیہ کی سطح کا ایک بڑا کمیونٹی پراجیکٹ جو کشمیر یوتھ پراجیکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے جو وہاں پر کسی طرح کی کمیونٹی سروسز مہیا کررہا ہے جبکہ بری ٹائون کی بھی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں پر باقی پاکستان کے نام پر جناح سینٹر قائم ہے۔ مانچسٹر سٹی کی حالت دیکھیں تو وہاں بھی پاکستانی کمیونٹی سینٹر عوام کو سروسز مہیا کررہا ہے، کاش اگر آج بولٹن میں بھی پاکستانی کمیونٹی سینٹر کا وجود ہوتا تو پاکستانی کمیونٹی 14اگست کا دن شایان شان طریقے سے مناتی۔
تازہ ترین