• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر :محمد رجاسب مغل۔۔۔ بریڈفورڈ
کیا برطانیہ کی ایشیائی کمیونٹی لاک ڈاؤن کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام ہو رہی ہے؟ ان دنوں یہ دعویٰ قدامت پسند ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے کیا جا رہا ہے جس میں خاص طور پر برطانوی مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا اور اس دعویٰ کو وزیراعظم بورس جانسن بھی انکار کرتے نظر نہیں آتے اگر چہ ان کے دعوؤں میں کوئی قابل اعتماد وضاحت موجود نہیں ہے کہ سماجی دوری کو برطانیہ کے دوسری کمیونٹی اور برطانیہ کے شہریوں کے کسی دوسرے گروہوں کے بارے میں اتنی سنجیدگی کیوں نہیں لے رہے ہیں صرف مسلمان کمیونٹی کو کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے حالانکہ مسلم کمیونٹی نے مساجد میں سماجی دوری اور احتیاطی تدابیر اور قواعد و ضوابط کا پوری طرح خیال رکھا نہ صرف برطانوی مسلمان بلکہ اکثریتی مسلم ممالک سمیت دنیا کے بیشتر حصوں میں معاشرتی دوری دیکھی جارہی ہے جیسا کہ حج کے موقع پر کئے گئے انتظامات ایک بہترین ثبوت ہے۔برطانیہ کے ممبر پارلیمنٹ وائٹکر کا یہ دعویٰ کہ برطانوی مسلمان اور پوری دنیا کے مسلمان معاشرتی فاصلوں کا خیال نہیں رکھتے انتہائی دلچسپ ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برطانیہ کی نسلی اقلیتوں پر سفید فاموں سے زیادہ کورونا وائرس قوانین کے تحت جرمانے عائد کیے گیے ہیں جو کہ سمجھ سے بالا ترہے خام شرائط پر سب سے زیادہ جرمانے جاری کرنے والے مقامات سیاحتی مقامات ہیں۔ شاید یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ پولیس دستے ان کی پروفائلنگ کا کافی حد تک غیر مستند طریقہ استعمال کررہی ہیں اور کسی بھی صورت میں ، جب آپ دیکھیںکہ لوگوں پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے ، بہت ساری ناپائیدگی ختم ہوجاتی ہے ،چھوٹی اقلیتوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ ان کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے حالانکہ برطانوی عوام کی اکثریت ، عمر ، نسل ، مذہب یا صنف سے قطع نظر ، کورونا وائرس کے ضوابط پر پوری طرح عمل پیرا ہے۔حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے ساتھ ان دعوؤں کے ساتھ مصالحت کرنا بھی مشکل ہے جہاں کہا گیا ہے کہ برطانوی مسلمان کام کے دوران لاک ڈاؤن اصولوں پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ جب ہم مقامی حکام کو ایک اہم نسلی اقلیتی برادری کی موجودگی یا عدم موجودگی ، یا کسی خاص طور پر مسلمانوں کی موجودگی یا عدم موجودگی کے معاملات اور اس کے علاوہ کے معاملات میں نمایاں اضافے کے ساتھ دیکھتے ہیں تو اس کی کورونا وائرس تصویر پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔نسلی اقلیتوں میں کورونا وائرس کے زیادہ امکانات ہونے کی متعدد وجوہات ہیں ایشیائی کمیونٹی جوائنٹ فیملی کے مضبوط رشتوں میں بندھے ہوتے ہیں انگریز کمیونٹی کے مقابلے میں ایشیائی کمیونٹی ایک گھر میں زیادہ تعداد میں رہتے ہیں۔ نیشنل ہیلتھ سروس سمیت ٹیکسی جیسی پبلک ٹرانسپورٹ اور دوکانوں میں کام کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی ایشیائی کمیونٹی کی ہے صرف مسلمان کمیونٹی کو ٹارگٹ کرنا کہ وہ سماجی دوری کا خیال نہیں رکھتے درست نہیں ہے کیونکہ برطانیہ میں آباد نسلی اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد ناقابل شناخت ہے۔صرف مسلمان عوام کو مورد الزام ٹھہرانے کے دعوے زمینی حقائق کی حمایت نہیں کرتےیہی وجہ ہے کہ بریڈفورڈ کی ممبر پارلیمنٹ ناز شاہ نے متعدد موقع پر برملا اظہار کیا اور حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جب کہا گیا کہ کوونا وائرس کی وبا پاکستان سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے ہے ناز شاہ نے اسے غیر حقیقت پر مبنی الزام قرار دیا تھا ۔ ناز شاہ نے کورونا وائرس کے حوالے سے حکومتی ناکامیوں کا ملبہ برٹش مسلمانوں پر ڈالنے کو مضحکہ خیز قرار دیا ۔عیدالاضحی کے موقع پر مسلمان کمیونٹی کے علاقوں بالخصوص بریڈفورڈ میں حکومت کی جانب سے منی لاک ڈاؤن کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ سماجی فاصلوں کو برقرار رکھنے کے لیے عید کے موقع پر ایک دوسرے کے گھروں میں جانے پر پابندی لگائی گئی ۔دوسری جانب شپلے کے ممبر پارلیمنٹ فلپ ڈیوس جن کا تعلق حکومتی جماعت سے ہے نے شپلے کے حلقے کو بھی لاک ڈاؤن میں ڈالنے کو تنقید کا نشانہ بنایا انہوں نے مقامی میڈیا میں اپنے ردعمل میںشپلے کے حلقے کو بریڈفورڈ کونسل سے علیحدہ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوروناوائرس کا زیادہ مسئلہ سینٹرل بریڈفورڈ میں ہے شپلے کے عوام کو سزا نہ دی جائے ۔بریڈفورڈ کونسل لیڈر سوزن ہنچکلف نےکہا کہ اس ایشو کو سیاسی فٹبال بنایا جا رہا سیاستدان اس کو غلط رنگ دے کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں کونسل بلاتفریق لوگوں کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
تازہ ترین