• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فعل: فعل کسی ایسے اچھے یا برے کام کو کہتے ہیں جو کسی عوامی نمائندے یا صاحب اختیار سے سرزد ہوتا ہے۔ مارشل لا یا ایمرجنسی نافذ کرنا بھی ایک فعل ہے اور انتخابات میں جھرلو پھیرنا بھی۔ قوم کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دینا بھی ایک فعل ہے اور اپنے قرضے بینکوں سے معاف کرا لینا بھی۔ دھرنا دینا بھی ایک فعل ہے اور کھوکھلے نعروں کی جگالی کرنا بھی۔ کسی نظریئے کی خاطر جام شہادت نوش کرنا بھی ایک فعل ہے اور بغیر منشور کے سیاسی میدان میں دگڑ دگڑ کرنا بھی۔ عوام تک بنیادی سہولتیں پہنچانے میں فیل ہونا بھی ایک فعل ہے اور اس فعل میں سارے کے سارے ہی فیل ہیں۔ اچھے فعل پر لوگ کم ہی شاباش دیتے ہیں جبکہ برے فعل پر نمائندہ عوام کی نظروں سے گر جاتا ہے تاہم اگلے انتخابات میں وہ کپڑے جھاڑ کر پھر ”کھڑا“ ہو جاتا ہے ۔
مثال: اس کی ہزاروں مثالیں ہیں ۔
فعل ماضی: اس سے مراد ماضی کے کارنامے بھی ہو سکتے ہیں اور کرتوت بھی۔ بندہ اپنے کسی فعل ماضی کی پاداش میں آرٹیکل63,62کے تحت نااہل بھی ہو سکتا ہے۔ ماضی کی کئی اقسام ہیں ، جن میں سے ایک ”داغ داغ ماضی“ بھی ہے۔ سب سے مشہور قسم ”شاندار ماضی“ ہے ۔ جس قوم کا مستقبل تاریک ہو وہ اس صیغے کا کثرت سے استعمال کرتی ہے۔
مثال: اس کی مثال دینا مناسب نہیں ۔
فعل حال: اس کو ”مندا حال “ بھی کہتے ہیں ۔ ناکے ، ڈاکے ،دھماکے ، فاقے ، کاکے اور اندھیرے سب فعل حال ہیں ۔ کوئی بھی فعل حال کسی فعل ماضی کا ردِ عمل ہو سکتا ہے ، جیسے کہا جاتا ہے کہ ”لوٹ کھسوٹ میں گزرے65سال آج ہمارا گریباں پکڑے کھڑے ہیں“ یا جیسے کسی نے کہا کہ میری بیوی جنت کی حور ہے تو دوسرا بولا”خوش قسمت ہو، میری تو ابھی زندہ ہے“۔
مثال: فعل حال کی سدا بہار مثال تو یہ ہے کہ ”خزانہ خالی ہے “ آج کل کی مقبول مثال زیر نظر ہے۔
نیرنگیٴ سیاستِ دوراں تو دیکھئے!
”ٹکٹ“ انہیں ملا جو شریک سفر نہ تھے !
فعل مستقبل: اس کا مطلب ہوتا ہے ”آج کا کام کل پر“ …جیسے ”کالا باغ ڈیم ضرور بنائیں گے “ یہ جمہوریت کا ایجاد کردہ فعل ہے۔ یہ کردوں گا…وہ کر دوں گی…کرپٹ ٹولے سے نجات دلائیں گے…نظام بدل دیں گے …گا ، گی ،گے۔ اس کو ہوائی قلعے تعمیر کرنا یا سبز باغ دکھانا بھی کہتے ہیں ، جیسے عاشق محبوب کو اور لیڈر عوام کو دکھاتے ہیں۔
مثال: آج کل انتخابات کے موسم میں اس کی بے شمار مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
فعل ماضی کی اقسام
ماضی مطلق: ایسا فعل جو گزرے ہوئے زمانے کو ظاہر کرے مگر زمانے کے قریب یا بعید ہونے کا پتہ نہ چلے مثلاً ”ریفرنڈم میں فرشتوں نے ووٹ ڈالے“ اس جملے سے ظاہر نہیں ہوتا کہ فرشتوں نے یہ کار خیر ضیاء الحق کے ریفرنڈم میں انجام دیا تھا یا ماضی قریب میں پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں یا جیسے ”مجھے شادی کے ذریعے گرین کارڈ کے خواب دکھانے والوں نے لوٹ لیا“ اس جملے سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ ٹھگوں نے یہ کام ماضی بعید میں کیا یا قریب میں ۔
ماضی قریب: وہ فعل جس میں قریب کا گزرا ہوا زمانہ پایا جائے مثلاً کسی ملک کی رعایا اپنی تاریخ کا پہلا مکمل جمہوری دور بھگت کر چند ہفتے قبل ہی فارغ ہوئی ہے یا جیسے ”ماضی قریب میں CNGکی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تھی“ ۔
ماضی بعید: ایسا فعل جس میں دور کا گزرا ہوا زمانہ پایا جائے مثلاً کبھی شریفوں اور سفید پوشوں کی عزت ہوتی تھی…کن ٹٹوں اور نودولتیوں کی نہیں یا جیسے ”ماضی بعید میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تھی“۔
ماضی استمراری: وہ فعل جو گزرے ہوئے زمانے میں کسی کام کے تکرار کو ظاہر کرے مثلاً
ہم کو خوف خدا جو دلاتے رہے
بینک بیلنس اپنا بڑھاتے رہے
ماضی شکیہ: ایسا فعل جس میں ماضی میں کسی کام کے کرنے یا ہونے میں شک معلوم ہو مثلاً ہارا ہوا امیدوار ہر ووٹر پر شک کرتا ہے کہ اس نے مجھے ووٹ نہیں دیا ہوگا۔
ماضی تمنائی: وہ فعل جس میں کسی کام کی آرزو یا تمنا گزرے ہوئے زمانے میں پائی جائے مثلاً ”کاش 9مارچ2007ء نہ آتا“ یہ فعل عام طور پر الیکشن ، شرط یا جوا ہارنے کے بعد وجود میں آتا ہے اور انسان کے اندر نئی تمنا پیدا کرتا ہے۔
فعل امر: ایسا فعل جس میں کسی کام کے کرنے کا حکم پایا جائے مثلاً عوام دہشت گردوں پر نظر رکھیں…عوام ہمیں ووٹ دیں…عوام حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں…عوام ہمارے لانگ مارچ میں شرکت کریں…عوام اٹھ کھڑے ہوں ( اور ہمیں اپنے کندھوں پر اٹھا لیں ) وغیرہ وغیرہ۔
فعل نہی: وہ فعل جس میں کسی کام کے نہ ہونے کا ذکر موجود ہو مثلاً ہمارے ہاں بجلی نہیں، گیس نہیں، پانی نہیں۔ ہمیں دہشت گردوں، ڈاکوؤں اور پولیس سے تحفظ حاصل نہیں وغیرہ وغیرہ۔
فعل معروف: ایسا فعل جس کا فاعل معلوم ہو مثلاً عوام کو اپنے چوروں کا علم ہے ( مگر وہ کچھ نہیں کر سکتے )۔
فعل مجہول: وہ فعل جس کا فاعل معلوم نہ ہو مثلاً ضیاء الحق نے پتہ نہیں کس کے بارے میں کہا تھا کہ ”اشارہ کر دوں تو دُم ہلاتے آ جائیں“۔ اب اس جملے سے ظاہر نہیں ہوتا کہ جنرلوں کے اشاروں پر دم ہلانے والے یعنی فاعل کون ہیں؟
فعل ناقص: یہ وہ فعل ہے جس میں ٹھیکیدار سرکاری کام میں گھپلا کرتا ہے اور ناقص میٹریل استعمال کرتا ہے۔ اس فعل میں سب مل کر کھاتے ہیں پھر بھی اس کو فعل ناقص کہا جاتا ہے …خدا جانے کیوں؟
تازہ ترین