• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے لیکن آپ کسی بازار چلے جائیں، ما رکیٹ کا رخ کر لیں، کسی بھی شاہراہ پر سفر کر لیں، لو گو ں کا ہجوم دیکھ کر مہنگائی ایک مذاق محسوس ہوتا ہے۔ گزشتہ روز میں اپنے ایک عزیز دوست کی دعوت پر مقامی فائیو سٹار ہو ٹل میں ڈنر پر مد عو تھا، ہو ٹل کی رونقیں اور چہل پہل دیکھ کر وہاں بھی بظاہر مہنگائی کی نفی محسوس ہوئی۔ میں ہوٹل میں رہائش کے لیے آنے والے لوگوں کا استقبالیے پر رش دیکھ کر ابھی سو چ رہا تھا کہ ان دنوں اسلام آباد میں عوامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بھی کم ہیں اسلام آباد سیاحت کے حوالے سے بھی کوئی زیادہ پرکشش نہیں ہے، بابوؤں کا شہر ہونے کی وجہ سے رات کے پہلے ہی پہر میں سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں کہ عشایئے میں مدعو ایک مہمان سیاسی شخصیت کی آمد پر ان سے سلام دعا کا سلسلہ شروع ہو گیا اقتدار کے ایوانوں تک رسائی اور اند ر کا حال جاننے والی شخصیت گفتگو میں بڑی مہارت رکھتی ہے انتہائی نجی قسم کے ڈنر کی وجہ سے اس شخصیت کا نام ظاہر نہیں کر سکتا البتہ آپ کو یہ اشارہ ضرور دے سکتا ہو ں کہ جب یہ ہو ٹل میں داخل ہوئے توہوٹل کے آ رکسٹرا پر یہ دھن بج رہی تھی تیری گلیوں میں نہ رکھیں گے قدم آ ج کے بعد ڈنر کی میز پر مہمانوں کا کو رم مکمل ہوا تو الیکشن 2013کے حوالے سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہو ا۔ شریک ایک صحافی مہمان کا خیال تھا کہ اخبارات پڑھیں اور ٹی وی چینلز دیکھیں تو انتخابات کے حوالے سے کچھ جو ش و خروش نظر آتا ہے لیکن عوامی سطح پر گلی محلوں میں کارنر میٹنگز میں ابھی گہماگہی نظر نہیں آرہی جو ماضی میں دیکھنے میں نظر آتی رہی ہے، انتخابی دفاتر یا تو ابھی کھلے نہیں اور اگر کھلے ہیں تو وہاں پڑی کرسیاں خالی نظر آتی ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ عوام ٹی وی چینلز پر پارٹی لیڈران کا اظہار خیال سن کر، ان کے ٹاک شوز اور انٹرویو دیکھ کر اپنی تشنگی دور کر لیتے ہیں۔ اس مرتبہ عوام شاید یہ توسوچ رہی ہے کہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانی ہے لیکن وہ زیادہ سیاسی ایکٹیویٹی کا حصہ نہیں بننا چاہتے جبکہ ایک دوسرے مہمان کا کہنا تھا دراصل دنیا میں میڈیا کے ذریعے بہت تبدیلی آچکی ہے جیسے کہ دینا کے طاقتورممالک جنگ میں جدیدہتھیاروں کی تیاری اور اپنی فو جیوں کی تربیت پر زور دیتے ہیں ۔کاغذی لائحہ عمل اور دشمنوں کو گھیرنے کیلئے منصوبہ بندی کرتی ہے وہاں جنگ جیتنے کیلئے میڈیا کا مو ثر استعمال بھی حکمت عملی کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ جنگوں کے حوالے سے ایک اور تبدیلی یہ آئی ہے کہ بڑے بڑے ممالک نے اب اپنے ملکوں کو میدان جنگ بنانے کی بجائے اپنے مفاد کی جنگوں کے لئے دوسرے ممالک کومیدان جنگ بناناشرو ع کر دیا ہے ۔تاکہ مفادات کی جنگ کے منفی اثرات سے ان کے ملک اور عوام دور رہیں اور معاشی سرگرمیاں جنگوں سے متاثر نہ ہوں۔ اس وجہ سے یہ ممالک ان ممالک کے ہر معاملات پر بھی گہری نظر رکھنے کو ضروری سمجھتے ہیں جہاں سے انہیں سپورٹ ملنا ہوتی ہے یا وہاں کی رکاوٹ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن 2013ء کے حوالے سے نہ صرف ہمارے ہمسایہ ممالک دلچسپی لے رہے ہیں بلکہ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں بھی پاکستان کے الیکشن پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ الیکشن سے پہلے کے مراحل پر نظر رکھنے کیلئے بھی بہت سارے وفود پاکستان پہنچ چکے ہیں اور اپنے جائزے اور تجزیے اپنے ممالک کو بھیج رہے ہیں۔ لیکن اس گفتگو کے دوران سیاست دان شخصیت نے ایک خبر دے کر سب کو چونکا دیا۔ انہوں نے پاکستان کے بہت قریبی دوست ملک کا نام لیتے ہوئے بتایا کہ اس ملک کی یہ کوشش ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف آپس میں اتحاد کر لیں اور الیکشن کے بعد مل کر حکومت بنائیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ دونوں بغلیں بجاتے رہ جائیں اور ایک مرتبہ پھر پچھلے پانچ سال کا کمبی نیشن اقتدار سنبھال لے۔ انہوں نے بتایا کہ اس میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے لیکن حتمی فیصلے الیکشن کے بعد نتائج دیکھ کر کئے جائیں گے۔ ڈنر میں شریک ہمارے دوست نے کہا کہ یہ تو بڑی خبر ہے تو سیاست دان وہاں فوراً بولے یہ بڑی خبر ہے لیکن ایک بری خبر بھی ہے کہ اس کوشش اور ملاقات کی آڈیو کسی مہربان نے ایوان صدر کے صاحب کو بھی پہنچا دی ہے اور وہاں جوابی کارروائی کے بارے میں بھی سوچ شروع ہو چکی ہے۔
تازہ ترین