• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ایک banana republicبن چکا، اگر کسی کو کوئی شک ہے تو حقیقی زندگی کا ایک شگوفہ سنیے۔ جنگ اخبار کے صفحہ اول میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ہمارے ایک نگراں وزیر اعلیٰ صاحب کو سرکاری فائلوں کی فوٹو کاپی کرانے میں کافی مسائل کا سامنا ہے۔ وہ ایسا کرنے میں کیوں دلچسبی رکھتے ہیں اس بارے میں خبر خاموش تھی۔ ایسے ناقابل اعتبار شخص کو وزیر اعلیٰ کیوں بنایا گیا اس کے بارے میں بھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی البتہ خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ مشکوک وزیراعلیٰ شاید اپنی صفائی میں آئی ایس آئی کے کسی افسر سے بات کرنا چاہتے تھے مگر آئی ایس آئی افسر نے جناب سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ خبر کے لکھنے کے انداز سے ایسا لگا جیسے آئی ایس آئی افسر نے نگراں وزیراعلیٰ سے انکار ایسی سرد مہری سے کیا جیسے کہہ رہا ہو خبر دارغیر ملکی جاسوس جو مجھ سے بات کی۔ خبر میں نگراں وزیر اعلیٰ کا نام نہیں لکھا تھا۔ اب مشکل ہمارے لیے یہ ہے کہ چاروں نگراں وزرائے اعلیٰ میں سے کس پر شک کیا جائے۔
اس امید کے ساتھ کہ خبر دینے والا رپورٹر وزیر اعلیٰ کا نام ضرور شائع کرے گا ، اب ایک خبر بزرگ نگراں کے صاحبزادہ صاحب کے بارے میں سنیے۔ کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی کافی شاپ میں رات گئے دیر اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ پہنچے ۔ تمام دوست مغربی مشروب کے زیر اثر تھے۔ جب وہ کافی شاپ پہنچے تو غزل کا دور تقریباً ختم ہونے کو تھا۔ جب گانے والی خاتون اپنی آخری غزل گا کر رخصت ہونے لگیں تو بزرگ نگراں کے صاحبزادے نے وہاں اودھم مچا دیا کہ یہ شام غزل اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ صاحب وہاں بیٹھے ہیں۔ انہیں سمجھایا گیا کہ اس کے لیے ایک وقت مقرر ہے مگر جناب صاحب کوئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ انہوں نے ہوٹل کے متعلقہ ملازمین کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اُن کو معلوم نہیں کہ وہ کس کے صاحبزادہ سے بات کر رہے ہیں۔ آئین کے مطابق تو نگراں چند ہفتوں کے لیے آئے ہیں مگر دعائیں کی جا رہی ہیں کہ کسی بہانے یہ نگراں سٹ اپ آگے چلے۔ نگراں وزیر اعظم اپنے پورے خاندان کے ساتھ سینکڑوں ایکڑمیں پھیلے وزیر اعظم ہاؤس میں منتقل ہو چکے جیسے وہ دو ماہ نہیں بلکہ دو یا تین سال کے لیے آئے ہوں اور تو اور جناب نجم سیٹھی صاحب بھی سیونتھ کلب چیف منسٹر ہاؤس منتقل ہو چکے اور سرکاری پروٹوکول کے خوب مزے لے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ ادوار میں پانچ سال کے لیے عوام کے منتخب وزرائے اعلیٰ نے بھی یہاں رہائش اختیار نہیں کی تھی اور وہ اپنے ذاتی گھروں میں ہی رہے۔ویسے بھی نگراں وزیر داخلہ ملک حبیب نے تین سال کی بات پہلے دن ہی اپنی پریس کانفرنس میں کر دی تھی۔ نجانے وہ slip of tongue تھی یا کہ دل کی بات مگر باوجود اس کے کہ سب وقت پر الیکشن چاہتے ہیں مگر الیکشن ملتوی ہونے کی افواہیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ جب الیکشن کی بات ہو رہی ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کا غیر سنجیدہ رویہ سارے معاملے کو متنازع بنا رہا ہے۔ ایک فیصلہ کرنا اور پھر اُسے واپس لینا تو الیکشن کمیشن کا معمول بن چکا۔ پہلے کہا گیا کہ اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر جنرل کو فوری فارغ کیا جائے مگر جب لاہور ہائی کورٹ نے پوچھا تو فرمایا کہ الیکشن کمیشن کو اس تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں۔ پہلے ڈگری کی تصدیق نہ کرانے والے سابق پارلیمنٹ کے ممبرز کو پندرہ دن کی ڈیڈ لائن دیتے ہیں مگر جب سیاستدانوں کا پریشر آتا ہے تو معافی مانگنے پر اتر آتے ہیں۔ ایک موقع پر کہا کہ 2008 والے کاغذات نامزدگی کی چھپائی کروائی جائے گی مگر جب میڈیا نے شور مچایا تو نئے کاغذات نامزدگی کی چھپائی کا حکم صادر فرما دیا۔ ایک دن ساستدانوں کی سیکورٹی سے متعلق خبروں کا نوٹس لیتے ہیں تو دوسرے دن کہتے ہیں کہ ہم نے تو کسی کی سیکورٹی کم کرنے کا نہیں کہا۔ ایک موقع پر حیران کن فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگا جا سکتا تو جب اس پر اعتراض کیا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ مگر بدھ کو ایک بار پھر فرما دیا کہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگا جا سکتا۔ کمال ہے پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانے والوں کو کھلی چھٹی ہے مگر اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں اسلام کے نام اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے نعرہ پر ووٹ نہیں مانگا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن کو یہ تو توفیق نہیں کہ ایسے افراد جو اسلامی نظریہ پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں اور پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کی کھلے عام بات کرتے ہیں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے روکے جیسا کہ آئین میں درج ہے مگر اسلام کے نام پر ووٹ لینا کمیشن کو گوارا نہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ماسوائے مولانا فضل الرحمن کے کسی دوسرے سیاستدان یا مذہبی رہنما نے الیکشن کیشن کی اس سلسلے میں مذمت نہیں کی۔
تازہ ترین