• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن


دلچسپ امر ہے کہ برطانیہ میں جب سے لاک ڈائون میں ذرا نرمی شروع ہوئی ہے منشیات کا استعمال آسمان سے باتیں کرنے لگا ہے۔ مجھے اس موضوع کا خیال اس لیے بھی آیا کہ گزشتہ رات گئے سینٹرل لندن جانے کا اتفاق ہوا تو پورا شہر منشیات کی بو سے اٹا پڑا تھا، کوئی گلی، کوئی سڑک، کوئی عمارت، کوئی پارک، کوئی فٹ پاتھ، چوراہا ایسا نہیں تھا جہاں فضا نشے میں پاک ہو، ہر سانس کے بعد لگتا تھا کہ بن پیے جھوم جائوں گا، اتنی شدت سے شہر بھر میں منشیات کا استعمال پہلی بار دیکھا اور محسوس کیا۔ جب یورپ کے مختلف شہروں میں دوستوں اور احباب سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ صرف برطانیہ نہیں یہ تو پورا یورپ اور امریکہ مدہوش ہونا چاہتا ہے۔ یہ کورونا وائرس کا حصہ ہے یا پب بند رہنے کا ردعمل، حالانکہ پابندیوں کے سارے عرصے میں لوگوں نے پب، گارڈن کبھی بھی ویران نہیں ہونے دیا، کیونکہ دکانوں اور اسٹوروں پر نہ صرف یہ کہ شراب کی خریدو فروخت پر کوئی پابندی نہیں تھی، بلکہ شراب کی سیل میں خاصہ اضافہ ہوگیا تھا کہ الکحل سے کورونا مر جاتا ہے اور پھر کورونا کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور اور فاصلے پر رہنے کی جو پابندی تھی اس میں ڈیٹنگ سے پرہیز بھی ملحوظ خاطر تھا، کیونکہ کورونا کے جسم میں داخل ہونے کے راستے ہی منہ، ناک اور آنکھ ہیں۔ شاید اس سب ملی جلی فرسٹریشن نے بڑے شہروں کی راتوں کو منشیات میں گوند دیا ہے۔ یوں تو منشیات ایک بہت بڑی صنعت ہے۔ سرمایہ داری نظام کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ اس کی اخلاقیات منافع اور سرمائے کی گردش کے حساب سے بدلتی رہتی ہیں۔ اخلاقیات کا منبع بھی یہی دونوں فیکٹرز ہیں، وگرنہ آپ تمباکو نوشی کو ہی لے لیں، اس کا استعمال کسی بھی صورت میں صحت کے لیے مفید نہیں، بلکہ یہ اسموکنگ کینسر اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کی جڑ ہے لیکن چونکہ یہ اربوں ڈالر کی انڈسٹری ہے، اس لیے اس پر آج تک پابندی نہیں لگائی جاسکی، اس طرح دوسری ڈرگز ہیں، جن کا یورپ کے مختلف ممالک میں گریڈ اے بی سی کے ذریعے مخصوص مقدار میں استعمال تو قانونی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ڈرگز کے کاروبار کرنے پر پابندی ہے یعنی اگر تجارتی سطح پر آپ کے پاس سے یہ منشیات ببرآمد ہوجائیں تو آپ قانون توڑنے کے مرتکب ہوجائیں گے۔ یہ یہاں کے قانون میں عجیب تضاد ہے، استعمال کی اجازت ہے، لیکن فروخت نہیں کرسکتے، نہ ہی یہ کسی دکانوں اور اسٹوروں پر دستیاب ہے، نہ ہی اس کے کوئی سرکاری ڈپو ہیں، پھر یہ ہیروئن، کریک، کینابیس اور کوکین جیسی ڈرگز لاکھوں لوگوں کے استعمال میں کہاں سے آتی ہیں، اس کا مطلب ہے ریاستی ادارے چھپ کے کاروبار کرنے کی اجازت دے رہے ہیں، یعنی آپ پکڑے نہ جائیں تو اس منشیات کے دھندے میں کوئی حرج نہیں، بالکل اسی کے ساتھ ملتی جلتی صورتحال پاکستان میں شراب کے ساتھ ہے، یورپ میں تو ان منشیات کی قیمتوں میں گزشتہ چند ماہ میں خاصا اضافہ ہوا ہے کیونکہ لوگوں نے گھروں کی چھوٹی پارٹیوں میں بھی ان ڈرگز کا استعمال بڑھا دیا ہے، اس چیز پر یہاں کئی سروے بھی منعقد ہوئے ہیں جس میں پتہ چلا ہے کہ ڈرگز استعمال کرنے والے58فیصد لوگوں نے ڈرگز کے استعمال میں اضافہ کیا ہے، جس کی وجہ وائرس سے بچنے کے لاک ڈائون کی وجہ سے احساس تنہائی اور بوریت میں اضافہ ہے۔ سروے کے مطابق چرس کے استعمال میں خاصا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اسٹاک میں کمی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنی ہے۔ آن لائن خریدو فروخت میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ حکام قطعی طور پر اس رجحان سے بے خبر نہیں ہیں۔ اس ایشو پر بہت سی سروے کمپنیاں اپنے نتائج مرتب کررہی ہیں اور اس بات پر مزید تشویش ظاہر کی جارہی ہے کہ کم عمر نوجوان نسل میں اس کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، جنہیں سپلائر چوری چوری چھپ چھپ کے ڈرگز سپلائی کرتے ہیں۔ اس تیزی سے پھیلتے ہوئے رجحان سے نیا گینگ کلچر جڑیں پکڑ رہا ہے۔ مجھے بھی کئی جگہوں پر ایسا دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے کہ کم عمر بچے اور بچیاں اسکولوں، کالجوں کے اوقات کے فوراً بعد محفوظ اور پوشیدہ کونے کھدرے تلاش کرکے مل کرGrouh Celebratronکرتے ہیں۔ اس وقت صرف یوکے میں13، 14، بلین پونڈ کی غیر قانونی ڈرگ انڈسٹری ہے۔ ہیلتھ ریسرچ بورڈ کے مطابق صرف آئر لینڈ میں نو سو ملین پونڈ کی سالانہ ٹریڈ ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری سوسائٹی اور ریاست کو ان ڈرگز کی ٹریڈ کے مقابلے میں اس کے اثرات اور نقصانات سے نمٹنے پر کہیں زیادہ لاگت آئی ہے۔ حالیہ تخمینوں کے مطابق اس وقت یورپی ممالک میں منشیات کی تجارت30بلین یورو سے زائد ہے جس کا مطلب ہے کہ برطانیہ پورے یورپ کی منشیات ٹریڈ کا ایک تہائی حصہ چلاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک شخص جوکہ کریک اور ہیروئن کا باقاعدہ استعمال کرتا ہے، وہ تقریباً20ہزار پونڈ سالانہ کمانے والے کے برابر ہے۔ ہیروئن کا استعمال ریونیو کے اعتبار سے سب سے زیازدہ ہے، کیونکہ ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اسے باقاعدگی سے ہفتے میں،3بار یاں اس سے زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کوکین، ہیروئن اور کینابیس کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ ان تمام منشیات سے صرف دماغی صحت ہی بری طرح متاثر نہیں ہوتی بلکہ جسم کے دیگر اعضا بھی کچھ عرصے بعد بگڑ جاتے ہیں۔ منشیات کے زیادہ استعمال والے کچھ عرصے بعد جنسی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر مرد ان منشیات کا عورتوں کے مقابلے میں زیادہ شکار ہوتے ہیں اور ڈرگ استعمال سے مردوں کی اموات کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ تاہم عورتوں کو جب ان منشیات کے استعمال کی عادت پڑ جاتی ہے تو پھر تو پھر ان کے اندر مردوں کے مقابلے میں زیادہ طلب ہوتی ہے، یہی طلب اس منشیات کی بلیک مارکیٹ کو چلاتی ہے۔ 

تازہ ترین