• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نواز لیگ کی طرف سے چکوال کی نمائندگی کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے مجھے جن تین چیزوں کا تجربہ ہوا وہ یہ ہیں کہ اس جماعت کے رہنما خوشامدی رویوں، جو بقول حبیب جالب”کرگس کو ہما“قرار دے دیں،کو پسند کرتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ اس کی اعلیٰ قیادت خود کو انتہائی پارسا اور درست سمجھتی ہے اور تیسری یہ کہ ان کی صلاحیتیں بے حد مبالغہ آرائی کے باوجود عامیانہ درجے کی ہیں۔یہ باتیں دل پر بوجھ تو تھیں تاہم میں ایک طرح کے جال میں پھنس چکا تھا۔ میں نے1998 میں پنجاب اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں کیونکہ مجھے احساس ہو چکا تھا کہ انتخابی سیاست میں داخل ہوکر میں نے اپنے اندر کے صحافی کے لئے مشکلات پیدا کر لی ہیں۔ اب کالم نگاری کو داؤ پر لگا کر سیاست کرنا کوئی خوشگوار تجربہ نہ تھا لیکن مشرف کے شب خون اور چکوال کی مقامی سیاست مجھے ایک مرتبہ پھر ن لیگ کے حلقے میں کھینچ لائی۔ اُس وقت چکوال کے تمام چھوٹے بڑے سیاست دان ، ضلع ناظم ، ن لیگ کے سابق وفاقی وزیر مجید ملک، مشرف کے کیمپ میں جا چکے تھے ۔ ان کے جانے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا کیمپ تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ اُس صورت ِ حال میں مقامی طور پر میں نے ن لیگ کے بگڑتے ہوئے تواز ن کو سہارا دینے کے لئے ان کے ٹکٹ پر 2002 کے انتخابات ، جو پرویز مشرف کی نگرانی میں ہوئے، میں حصہ لیا۔ اُس وقت ن لیگ کا ٹکٹ لینا خود کو داؤ پر لگانے کے مترادف تھا، تاہم ، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میں نے جیتنے والے امیدوار کے 71,500 ووٹوں کے مقابلے میں 70,000 ووٹ حاصل کئے۔ اس طرح میں صرف پندرہ سو ووٹوں کے فرق سے ہارا۔اگر کچھ نادیدہ فرشتے، جو انتخابی عمل میں بہت فعال ہوجاتے ہیں، مداخلت نہ کرتے تو نتائج شاید مختلف ہوتے۔
اُس وقت میرے کالموں کو بھاری بھرکم مینڈیٹ والے حکمران، جو تب تک جدہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ یہ جلاوطنی ایک سعودی پرنس اور حریری ثالثی کا نتیجہ تھی۔ اس کے مطابق شریف برادران کو دس سال تک پاکستان کی داخلی سیاست سے دور رہ کر سعودی مہمان نوازی کا مزا لوٹنا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے اس حوالے سے سچ بولنے کا حوصلہ نہ دکھایا ، یہا ں تک کہ سعودی انٹیلی جنس چیف، شہزادہ مقرن، کواسلام آباد میں ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کرنا پڑی ، جہاں اُنھو ں نے ایک کاغذ کو لہراتے ہوئے ہونے والے معاہدے کی تصدیق کی۔ یہ واقعہ کسی کو بھی لاجواب کرنے کے لیے کافی تھا ، لیکن ہمارے رہنما یہ کہتے ہوئے واپس آگئے کہ معاہدہ دس سال کا نہیں، صرف پانچ سال تک کا تھا۔ اس ”معصومیت “ پر بہت سوں کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ اس کے بعد 2008 کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو میں چکوال میں ن لیگ کی عملی قیادت کر رہا تھا ۔ ایک کے سوا تمام حلقوں میں دئیے جانے والے ٹکٹوں کا فیصلہ میں نے کیا۔ اس مرتبہ میں نے اپنی قومی اسمبلی کی سیٹ دھڑلے سے جیتی۔ میرے حاصل کئے گئے ووٹوں کی تعداد 125,437 تھی اور یہ پنجاب میں کسی بھی امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں سے زیادہ تھی۔
تاہم اب یہ ماضی کا حصہ ہے۔ آج ،جب گیارہ مئی کا مرحلہ قریب آرہا ہے، مجھ پر قسمت ایک مرتبہ پھر مہربان ہو گئی ہے اور، شاید آپ کو یقین نہ آئے، اس مرتبہ میرے اندر کے صحافی کی ”سنی “ گئی ہے۔ ن لیگ نے مجھے ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بنی ہے کہ میری صحافتی جرأت آزمائی پارٹی قائدین کی طبع ِ نازک پر گراں گزرتی ہے اور ، جیسا کہ انگریز شاعر میتھوآرنلڈ نے کہا ہے کہ ”اسلوب ِ نگارش کردار کی غمازی کرتا ہے“، شاید میرے الفاظ کی طرح میرا چہرہ بھی پارٹی قائدین کے لئے ناپسندیدہ بن چکا ہے۔ میں جانتا تھا کہ پارٹی میں میرے دن گنے جا چکے ہیں لیکن میں ان کے ساتھ چلتا رہا ،کیونکہ میں اپنے حلقہ ٴ انتخاب میں لوگوں کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتا تھا کہ میں بات بات پر استعفیٰ دینے کا عادی ہوں۔ بہرحا ل آج جو بھی وجہ سمجھیں، جب میں نے کہا کہ مجھے سکون ملا ہے ، تو یقین جانیں ایسا لگتا ہے کہ بہت دیر سے پہنے تنگ جامے سے باہر آگیا ہوں۔ مجھے خدا نے اتنی عقل دی ہوئی ہے کہ میں نے کبھی بھی اپنے کالم کو پارٹی منشور کا آئینہ دار نہیں بنایا ، اور اس پر میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ تاہم جب کبھی پارٹی قیادت پر نکتہ چینی کرنا ہوتی تھی، میں طوہاً کرہاً ، پارٹی کے ساتھ وابستگی کا خیال کرکے دل پر جبر کرتے ہوئے اپنے الفاظ کی کاٹ کو کنٹرول کرلیتا۔میں نے میمو گیٹ اسکینڈل پر نواز شریف صاحب کے موقف پر طنزیہ لہجے میں تنقید کی اور یہ کہا کہ شاید وہ اس مخصوص واقعے کو اس کے اصل پیرائے میں سمجھنے میں ناکام ہوگئے ہیں، تاہم میں نے اُس واقعے کا سپریم کورٹ کی طرف سے آنے والے اصغر خان کیس کے فیصلے کے ساتھ تعلق جوڑنے کی کوشش نہ کی حالانکہ وہ میمو گیٹ کے برعکس دوٹوک فیصلہ تھا کہ بہت سے سیاست دانوں، بشمول شریف برادران، نے 1990 کے انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لئے خفیہ ایجنسی سے پیسے لیے ہیں۔ تاہم آنے والے فیصلے کے نتیجے میں نہ کوئی کارروائی عمل میں آئی، نہ کوئی احتساب ہوا اور نہ ہی کوئی پوچھ گچھ ہوئی… ایسالگتا تھا کہ تمام مبینہ طور پر رقم لینے والے سیاست دانوں نے کسی مقدس چشمے سے غسل کر لیا تھا۔ ذرا تصور کریں ، اگر اصغر خان کیس میں پی پی پی کے رہنماؤں کا نام آتا تو اُن پر کون سی قیامت تھی جو نہ ٹوٹ پڑتی۔ سابق وزیر ِ اعظم راجہ پرویز اشرف تو سی ڈی اے کے حوالے سے کسی کیس کی بنا پر نااہل قرار پائے ، لیکن خفیہ اداروں سے رقوم لینے والوں نے شاید فائرپروف لبادے اُوڑھے ہوئے ہیں جس نے ان کو ہر قسم کی تمازت سے محفوظ بنایا ہوا ہے۔ اس دوران میں اگرچہ چاند ستاروں، غالب اور سہگل ، جنگجومجاہدوں اور دختر ِ انگور کی باتیں کرتا رہا، لیکن میں نے اس طرفہ تماشے کوسپرد ِ قلم نہ کیا۔ اس احتیاط نے میرے اندر کے صحافی کو نڈھال کر دیا۔
ان انتخابات میں بہت سے تماشے ہورہے ہیں۔ کہا گیا کہ بنک کے قرض نادہندگان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے ، تاہم خاطر جمع رکھیں، اس پر کسی کی بھی نیندیں حرام نہیں ہوں گی ۔ گجرات کے چوہدریوں نے تو بھاری بھرکم قرضے معاف کرا لیے تھے اور اس کا ریکارڈ موجود ہے، تاہم شریف برادران اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئے اور اُنھوں نے نوّے کی دھائی میں نیشنل بنک اور آٹھ دیگر بنکوں سے لیا گیا تقریباً تین بلین روپے کا قرض ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ جب 1997 میں نواز شریف وزیر ِ اعظم بنے تو اُنھوں نے سرکاری ٹی وی پر بڑے فخر سے اعلان کیا کہ اُنھوں نے اپنے اور اپنے خاندان کی طرف سے لئے گئے تمام قرضوں کے عوض اثاثے دے کر قرض ادا کر دیا ہے۔ اُنھوں نے قوم کو جتایا کہ یہ وطن کے لیے اُن کی فقید المثال قربانی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دئیے گئے اثاثے وہ تھے جن کی کمرشل قدر بالکل گر چکی تھی، تاہم ایک ستم اور ہوا کہ ابھی اس اعلان کی بازگشت مدہم بھی نہ پڑی تھی کہ اُن کے خاندان کے ایک صاحب عدالت میں چلے گئے کہ وہ اُس جائیداد میں حصہ دار ہیں اور نواز شریف کے پاس اُسے یک طرفہ طور پر بنک کو دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں پندرہ سال سے زیر ِ التوا ہے… سبحان الله!بہرحال بنک کے نادہندگان ایک مرتبہ پھر ملک و قوم کو بچانے کے لئے میدان میں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وطن میں صبح ِ نو طلوع ہونے کو ہے۔
دوسری طرف ان کے سیاسی حریف زرداری صاحب جیسے ہیں، ویسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اُنھوں نے کبھی بھی پارسائی کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ شریف برادران بھی جو تھے، سب کو معلو م ہے، لیکن ہمارے قومی منظر نامے پر بننے والے نگار خانے میں عدیم النظیر بصری واہمے کی مدد سے اُن کو پارسائی کی وہ سند عطاہوگئی ہے جہاں بات کرتے ہوئے صریر ِ خامہ کا گلا رندھ جاتا ہے۔پاکستانی بنکوں کو کنگال کردینا اور لبادہ ِ شرافت پر ایک شکن بھی نہ پڑنے دینا یقیناً بہت مہان کلاکاری ہے۔ یہ درست ہے کہ میں بھی گاہے بگاہے تنقید کے تیر چلاتا رہا لیکن کمان کو اتنا نہیں کھینچا جتنا جتنا میرے دوست چوہدری نثارعلی خان کی تقاریر کا دورانیہ کھنچتا چلا جارہا تھا۔ چوہدری صاحب خود کو کسی رومن فلاسفر سے کم نہیں سمجھتے، چنانچہ بے تکان محو ِ خطاب رہتے ہیں، جبکہ اس دوران اکتائے ہوئے سامعین کے پاس کوئی یونانی (دوا) نہیں ہوتی کہ وہ اُن کو چپ کرا سکیں۔ اگر قصور وار افراد کو اُن کی تقاریر ، صبح و مسا، سنانے کی سزا تجویز کی جائے تو پہلے ہی ہلے میں وہ گھٹنے ٹیک دیں اور نیکی و پرہیزگاری کی زندگی گزارنے کے لیے کانوں کو ہاتھ لگالیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور کو نکال کر پی پی پی کو تین مرتبہ اقتدار ملا اور تینوں مرتبہ ہی اس نے ملک کا کباڑ ا کر دیا۔ ن لیگ کا دور بھی تباہ کن تھا ۔ پنجاب کے حالیہ حکمران، شہباز شریف، صرف اُس وقت اچھے لگتے ہیں جب اُن کا پی پی پی کے ساتھ موازنہ کیا جائے ، وگرنہ سستی روٹی ، لیپ ٹاپ اور دانش اسکول جیسی بے مقصد سرگرمیوں کے سوا اُن کے کھاتے میں کیا ہے؟مشہور سائنسدان آئن اسٹائن نے پاگل پن کی یہ تعریف بیان کی تھی…”ایک ہی سرگرمی کو دہرانا اور ہر مرتبہ مختلف نتائج کی توقع کرنا۔“افسوس، ہم اسی باسی کھانے کو زہر مار کرنے لگے ہیں جس کو ہم پہلے بھی کھاچکے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی نیا انتخاب نہیں ہے۔
حرف ِ آخر : جنرل (ر) مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی ہونی چاہئے کیونکہ ہر کسی کو اپنے کئے کا پھل ملنا چاہیے۔ تاہم میر ی خواہش ہے کہ ہم واقعات کو یاد کرنے میں پسند و ناپسند کے اسیر نہ بنیں۔ ہر کسی کو تین نومبر 2007 کا واقعہ تو پوری طرح ازبر ہے ، مگر 12 اکتوبر 1999 کے حوالے سے یادداشت پر کچھ پہرے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب جنرل مشرف اور اُس کے ساتھ فوجی ہائی کمان نے حکومت کا تختہ الٹا ، اور یہ ایک تکلیف دہ سچائی ہے، تو عدلیہ نے اُس اقدام کی توثیق کر دی ۔ اُس وقت کی عدلیہ میں آج کی اعلیٰ عدلیہ کے کچھ جج صاحبان بھی شامل تھے اور اُنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیا۔ کیا کسی کو اُس اقدام پر رتی بھر بھی ندامت ہے؟
تازہ ترین