• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹیکس چوروں کی جنت پاناما کے حوالے سے منظر عام پر آنے والےپاناما لیکس سکینڈل پر دنیا بھر میں بپا ہونے والا ہنگامہ کئی روز گزرنے کے بعد بھی تھما نہیں ۔ حکومتی شخصیات پر آف شور کمپنیوں میں اثاثے چھپانے، ٹیکس چرانے اور غیر قانونی کاروبار کرنے کے الزامات پر مختلف ملکوں کی حکومتیں ڈگمگا رہی ہیں۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم مستعفی ہوگئے ہیں۔ برطانیہ اور مالٹا کے وزرائے اعظم کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ روسی صدر کو آئندہ عام انتخابات میں سخت مقابلے کا چیلنج درپیش ہے اور جرمن وزیر خزانہ نے تجویز دی ہے کہ ٹیکس تفصیلات کا تبادلہ نہ کرنے والے ملکوں کو بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ آف شور کمپنیوں کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جائے جس میں ان کے مالکان کے نام بھی درج کئے جائیں تاکہ ان کمپنیوں کی آڑ میں منی لانڈرنگ ٹیکس چوری اور لوٹ کھسوٹ کا پیسہ لگانے والے سیاستدانوں اور دیگر کرپٹ افراد کی نشاندہی ہوسکے۔ پاکستان میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اس مسئلے پر شدید نوعیت کی الزام تراشی اور ہنگامہ آرائی کی بدولت پیر کو مچھلی منڈی بنا رہا۔ پاناما انکشافات میں پاکستان کے دو سو سے زائد افراد کے نام مشکوک مالیاتی سرگرمیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ لیکن مخالف سیاسی پارٹیوں نے سب کو چھوڑ کر صرف وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ وزیراعظم نے اس معاملے میں اپنے بیٹوں کے کاروبار کا حوالہ آنے پر قوم سے خطاب میں ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا مگر اپوزیشن پارٹیوں نے اسے مسترد کر دیا جس کی بنا پر ان ریٹائرڈ ججوں نے بھی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جن کے نام میڈیا میں آ رہے تھے۔ اپوزیشن پارٹیاں اس مسئلہ پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے پر تو متفق ہیں مگر اس کے حل پر عدم اتفاق کا شکار ہیں۔ کوئی وزیراعظم کے استعفٰے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کوئی چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کی تجویز دے رہا ہے اور کوئی عالمی مالیاتی فرم سے فرانزک آڈٹ کرانے کا خواہش مند ہیں، پیر کے اجلاس میںتقاریر کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان نے شریف خاندان کے مالی معاملات کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تحریک انصاف نے اس مسئلہ پر رائے ونڈ میں وزیراعظم کی ذاتی رہائش گاہ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کا اعلیٰ سطحی اجلاس بلا لیا ہے تاکہ اپنا لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔ حکمران پارٹی کے وزراء اور مرکزی لیڈر اپوزیشن کے الزامات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور جوابی حملے کر رہے ہیں۔ شور شرابے کے اس ماحول میں عام آدمی کے لئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ دوسرے ممالک میں اس معاملہ پر کہیں تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کی جارہی ہیں اور کہیں ٹیکس اصلاحات اور مالیاتی نظام میں بہتری لانے کے اعلانات ہو رہے ہیں مگر پاکستان میں الزامات کی سیاست ہو رہی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاناما جیسے معاملات پر دنیا بھر میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے اپوزیشن پارٹیاں حکومتوں کو سخت ترین ہدف کا نشانہ بناتی ہیں مگر اصل معاملے کا قابل قبول حل نکالنے کی راہ بھی تلاش کرتی ہیں۔ صرف سڑکوں پر اور گلی کوچوں میں مظاہرے ، جلسے جلوس، نعرے بازی ، ماردھاڑ اور کسی کے گھر کی دہلیز تک احتجاج لے جانا ہی ایسے مسائل کا حل نہیں۔ ماضی میں ہماری سیاسی جماعتیں بڑے بڑے مسائل کا بات چیت اور افہام و تفہیم سے حل نکال چکی ہیں۔ ایک متفقہ کمیشن پہلے بھی بنا تھا جس کا فیصلہ پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں نے تسلیم کر لیا تھا۔ اب بھی قومی مفاد میں یہی بہتر ہوگا کہ سب مل کر بیٹھیں اور اتفاق رائے سے ایک غیر جانبدار تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیں جسے مالی معاملات کا فرانزک آڈٹ کرانے سمیت وسیع اختیارات حاصل ہوں۔ قومی اتفاق رائے کے اس حل پر حکومت کو پس و پیش کرنی چاہئے نہ اپوزیشن کو اس سےگریز کرنا چاہئے۔
تازہ ترین