• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

’’پیارا گھر‘‘ سے قربت

’’آج مَیں اوپر، آسماں نیچے، آج میں آگے، زمانہ ہے پیچھے‘‘ ہمارا یہ ایک مکمل تبصرہ اپنے پیارے میگزین کے لیے ہے۔ سب سے پہلے صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کی طرف نظر کی تو ’’عفوو درگزر‘‘ اور ’’وقت کی قدر و قیمت‘‘ جیسے مضامین سے دل و دماغ منوّر ہوئے۔ سلسلہ عجائب خانہ میں ’’سفید کوّے‘‘ نظر آئے، تو ان کو اُڑا کر سلسلۂ انٹرویو پر جاپہنچے، جہاں سیرت نگار و محقّق، پروفیسر محمد یٰسین مظہر سے بیش قیمت گفتگو ہو رہی تھی۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ’’تمباکو نوش افراد کورونا وائرس کا آسان ہدف‘‘ انتہائی معلوماتی مضمون تھا۔ صفحہ پیاراگھر نے مَن ہی موہ لیا۔ اور اس بار تو اسٹائل، اسٹائل سے بھرپور تھا۔ متفرق میں ’’کرتار پور راہ داری‘‘پر چَھپی تحریر مختصر، لیکن اَن مول تھی۔ ’’میران تالپور کے قبّے‘‘ بھی ایک دل چسپ تحریر لگی۔ اور اب ذکر، اس پورے میگزین کی جان ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا، جس میں خطوط و برقی خطوط شان دار تھے۔ (آصف احمد، کھوکھرا پار،کراچی)

ج: پیارا گھر سے صرف قربت رہی یا گھر کو پیارا بنانے کی کچھ کوشش بھی کی؟

بیماری سے پہلے علاج

طویل لاک ڈائون کےبعد تھوڑی سی نرمی ہوئی توہمیں ہمارا پیارا جنگ، سنڈے میگزین ملا کہ ہمارے شہرِ وفا، بہاول نگر میں اخبارات کی ترسیل بند تھی۔ بہر حال، مَیں حسبِ روایت دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ’’سرچشمہ ہدایت‘‘ کا صفحہ ایک ہی ایڈیشن میں شامل تھا۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے سائنسی محاذ پر کیا ہو رہا ہے۔ آپ کے جریدے سے پتا چلا۔ بےشک اللہ تعالیٰ ہر بیماری سے پہلے اُس کا علاج دنیا میں اتارتا ہے۔ تو اللہ نے چاہا تو بہت جلد اس وبا کا علاج دریافت ہوجائےگا۔ معروف سیرت نگار، پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہرکا انٹرویو بہترین تھا۔ ’’عجائب خانہ‘‘ میں سفید کوّے کی سیکنڈ لاسٹ اور لاسٹ اقساط بھی کمال کی رہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں پیر جنید علی چشتی نے ناچیز کو سلام کہا، تو بھئی وعلیکم السلام۔ ایک پیغام، پیاروں کے نام، صفحہ بھی شاملِ اشاعت ہوا۔ ماہ مئی میں میری والدہ ماجدہ رحلت فرماگئیں۔ قارئین سے التماس ہے اُن کے لیے دعائے مغفرت فرمائیں۔(پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: اللہ غفور الرحیم آپ کی والدۂ ماجدہ کے ساتھ رحم و کرم کابہترین معاملہ فرمائے۔ اُن کی لحد روشن ہو اور جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام پائیں۔

خود مغالطے کا شکار

ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی عرفان جاوید کی تحریر ’’مغالطے اورحقائق‘‘ ایک بہترین کاوش تھی۔ بس تھوڑی سی تصحیح کرنا چاہوں گا کہ جہاں انہوں نے بہت سے حقائق بیان کیے، وہاں خود بھی ایک مغالطے کا شکار ہیں۔ وہ یوں کہ انہوں نے لکھا، پورے چاند یعنی 14ویں کے چاند کے سمندر کی لہروں پر تو اثرات مرتّب ہوتے ہیں، مگر انسانی فطرت، نفسیات یاجسم پر اثرات ثابت نہیں ہوسکے۔ تو ایسانہیں ہے۔ انسان کی پیدایش سے وفات تک اس کے جسم پر چاند کی بڑھتی گھٹتی تاریخوں کے اثرات ثابت ہیں۔ مَیں خود روحانی علوم پر دسترس رکھتا ہوں اور پچھلے 50 برس سے ان تاریخوں ہی کی مناسبت سےخصوصاً نسوانی امراض کا علاج کر رہا ہوں۔ (صوفی محمد مہر نقش بند، آزاد کشمیر)

معیار کے اعتبار سے سرِفہرست

منور راجپوت نے اپنے فیچر ’’کورونا وائرس کے بے تیغ سپاہی‘‘ میں کورونا وبا سے انسانیت کو محفوظ کرنے والے معالجین کو خراجِ تحسین پیش کیا، شاباش۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ’’ماہِ رمضان اور قرآن عظیم الشان‘‘ کا فلسفہ پڑھوا کر نیک کام کرگئیں، جزاک اللہ۔ ’’گفتگو‘‘ میں محمّد ہمایوں ظفر نے مقبول سماجی ہستی انصار برنی کے کردار و خدمات کا احاطہ ہنرمندی کےساتھ کیا۔ ’’مرکزی صفحات‘‘ پر رائٹر کا نام ’’نرجس ملک‘‘ پڑھتے ہی اوراق میگزین پلٹنا ترک کرکے محرابوں میں سجی تحریر پڑھنی شروع کردی۔ جان صبوری کا فارسی الاصل کلام ’’شہر خالی، جادہ خالی، قریہ خالی، جام خالی…‘‘ جو اِن دنوں کئی دلوں کی دھڑکن اور رواں آنسوئوں کاسبب ہے، مدیرہ نےنہایت عُمدگی سے تحریر میں استعمال کیا۔ رائو محمد شاہد ’’وبائی ایّام اور ماہِ صیام کی عبادات‘‘ لائے، اچھا مضمون تھا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر اسداللہ سومرو ماہِ رمضان کو صحت انسانی کے لیے مکمل تربیتی کورس قرار دے رہے تھے۔’’عرفان جاوید‘‘ کی تصانیف محض اپنی تعداد کے لحاظ سے اہم نہیں، بلکہ معیار کے اعتبار سے بھی سرِفہرست ہوا کرتی ہیں۔ بزمِ نگاراں، محفلِ یاراں، آباد رہے! ’’آپ کا صفحہ‘‘ اپنی زندگی لیے فلک ابد پر سجا۔ اِن ہفتوں ’’گوشہ برقی خطوط‘‘ کادامن وسیع کیا، خُوب کیا۔ (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹائون،کراچی)

’’ابّو نامہ‘‘ نہیں رکھا جاسکتا؟

جریدہ ہاتھوں ہاتھ لیا، سرِورق پر نظر پڑی، بہت اچھا لگا۔ یقین جانیے ’’ابّو نامہ‘‘ کلاسیکل تھا۔ کیا فادرز ڈے کا نام ’’ابّو نامہ‘‘ نہیں رکھا جاسکتا؟ یہ ابّو ہی تو ہوتے ہیں، جو ساری دنیا کا بوجھ اٹھا کر بھی اپنے بچّوں کی خوشیاں ماند نہیں پڑنے دیتے۔ کرکٹر ابو، کامران اکمل کی باتیں پڑھ کر مزہ آیا۔ اللہ تعالیٰ سب کے والدین کو سلامت رکھے۔ ’’انٹرویو‘‘ پڑھ کے حیرت ہوئی، ایک پاکستانی نژاد اورایسا لائق فائق کےنیورو چِپ ہی بنالی۔ پروفیسر ڈاکٹرنویدسیّد کا انٹرویو پڑھ کے سب ہی پاکستانیوں کا حوصلہ بڑھا ہوگا۔ ارطغرل غازی کی اِن دنوں ہر طرف دھوم مچی ہوئی ہے۔ آپ نے اُس کے رائٹر، پروڈیوسر کا انٹرویو کرکے تو کمال کردیا۔ پہلی بار میں نے ’’کہی اَن کہی‘‘ اس قدر دل چسپی سے پڑھا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں ڈیرہ اللہ یار سے ارسال کیا گیا پیغام زبردست تھا۔ باقی بھی قابلِ تحسین رہے۔ آخری صفحے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ عُمدہ بات یہ ہے کہ اس میں نئے نئے دوست بھی شامل ہورہے ہیں۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج: آپ اس ایڈیشن کو ’’ابّو نامہ‘‘ ہی کہہ لیا کریں۔ ہمیں ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔

سفر نامہ شاملِ اشاعت ہوجائے.....

بہت خُوب بھئی، آپ نے ’’ارطغرل غازی‘‘ کے رائٹر، پروڈیوسر کا انٹرویو شایع کرکے تو دل ہی جیت لیے۔ کیوں کہ لوگ واقعی اس سیریز کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔ اگر ممکن ہوسکے تو ’’ابنِ عربی‘‘ کا کردار ادا کرنے والے فن کار کا بھی انٹرویو شایع کریں۔ ویسے تو میگزین ٹھیک ہی ہے، لیکن اگر کوئی سفر نامہ شاملِ اشاعت ہوجائے تو اس کے حُسن کو چار چاند لگ جائیں۔ ناقابلِ فراموش میں تو آج کل کچھ اوٹ پٹانگ سے قصّے شایع ہورہے ہیں۔ اس کی جگہ آپ کوئی آٹو بائیوگرافی کا سلسلہ شروع کریں۔ (سمیع عادلوف، جھڈّو، میرپورخاص)

ج: جی، اپ کی خواہش کی جلد تکمیل ہونے جارہی ہے۔

کہانیاں نہیں مل رہیں

سنڈےمیگزین زیر مطالعہ ہے۔ میرےپسندیدہ لکھاری منور مرزا کے دونوں مضامین خُوب تھے۔ عرفان جاوید کے ’’سفید کوّے‘‘ بھی خوب کائیں کائیں کرکے بالآخر پرواز کرگئے۔ نسرین جبیں نے خواجہ سرائوں کے مسائل اُجاگر کیے۔ ڈاکٹر سیّد منصور علی نے تمباکو نوشی سے متعلق آگاہی دی۔ ڈائجسٹ کی کہانیاں بھی بہتر تھیں۔ 14جون کے میگزین میں ایک قاری کو جواب دیتے ہوئے آپ نے لکھا کہ ’’ناقابلِ فراموش کے لیے کہانیاں نہیں مل رہیں‘‘ حالاں کہ میں نے بھی ایک سچّی کہانی (سچ بیتی) ارسال کی تھی۔ تقریباً تین ماہ گزر گئے۔ اس کا کچھ پتا نہیں چلا۔ ناقابلِ اشاعت میں بھی نام نہیں آیا۔ بخدا وہ سو فی صد سچّی کہانی تھی، بس ذرا طویل تھی۔ گزارش ہے کہ اُسے شایع فرمائیں۔ ایک قسط میں نہ ہوسکے، تو دو اقساط میں شایع کردیں۔ (حارث علی خان، ملیر کالونی، کراچی)

ج: ہم نے یہ جواب نہیں دیا تھا کہ ’’کہانیاں نہیں مل رہیں؟‘‘ بلکہ یہ جواب دیا تھا کہ ’’اچھی کہانیاں نہیں مل رہیں‘‘ ایک ناقابلِ فراموش قصّے اور آٹو بائیو گرافی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ہمارے صفحے کا فارمیٹ یہ ہے کہ ہمیں اُس پر ایک، دو دل چسپ، انوکھے، نہ بھولنے والے واقعات شایع کرنے ہوتے ہیں، نہ کہ کسی کی رام کہانیاں ہی قسط وار چھاپنا شروع کردیں۔

دو تحریروں نے مجبور کردیا

کافی عرصے سے اپنے آپ کو میگزین پڑھنے تک محدود رکھا ہوا تھا۔ مگر پھر دو تحریریں پڑھ کے مجبور ہوگئی اور محفل میں حاضری کا ارادہ کرلیا، کیوں کہ ان کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ سچ کہوں تو احفاظ الرحمٰن کے بارے میں آپ کی تحریر پڑھ کر مَیں تو لفظوں کے طلسم ہی میں گم ہوگئی۔ اس قدر خُوب صُورت پیرائے میں اتنا شان دار خراجِ عقیدت۔ جیسا باکمال استاد، ویسی ہی باکمال شاگرد (جو ہم جیسے نو آموز لکھاریوں کی تحریروں کو بھی خُوب سجا سنوار کر شایع کرتی ہیں) واقعی، جو لوگ اپنے اساتذہ کا احترام کرتے ہیں، وہی منزلیں، رِفعتیں پاتے ہیں۔ دوسری تحریر جس نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا، وہ عزیزہ انجم کی ’’اسٹیشن‘‘ ہے۔ تمثیلی پیرائے میں زندگی و موت کی حقیقت کا ایسا عُمدہ بیان دل چُھو گیا۔ یہ بات سب ہی کو معلوم ہے کہ ٹرین (زندگی) سرپٹ دوڑ رہی ہے اور کسی بھی اسٹیشن پر تنہا اپنی پوٹلی لے کر اُترنا ہے، مگر پھر بھی اکثر زادِ راہ تیار ہی نہیں کرتے اور اُنہیں خالی ہاتھ ہی تاریک جنگل میں تنہا اُترنا پڑتا ہے۔ مَیں نے یہ کہانی اپنے فیملی گروپ میں بھی شیئر کی۔ ہر ایک ہی کا دل لرز گیا جیسے میرا دل پڑھ کے کانپا اور خوفِ خدا کچھ اور بھی بڑھ گیا۔ (مصباح طیّب، سرگودھا)

ج: ویسے بہت اچھا لگتا ہے، ایسے کسی کا مجبور کردینا، کسی کا مجبور ہوجانا۔

چھوٹی سی سمجھ دانی

کیا آپ لوگوں کے پاس عرفان جاوید کے علاوہ اور کوئی ناول نگار نہیں ہے۔ کیا سنڈے میگزین میں صرف عرفان جاوید ہی کے ناول شایع ہوں گے۔ براہ مہربانی عرفان جاوید کو بخش دیں اور کسی دوسرے ناول نگار کو موقع دیں اور آپ کا صفحہ میں یہ ’’دھن پربھانیاں‘‘ جیسی پہیلیاں کیوں بُجھوانی شروع کردیں۔ آپ نے ہمیں کیا افلاطون سمجھ رکھا ہے۔ ہماری ایک چھوٹی سی سمجھ دانی ہے، اس لیےہم سے ایسی کوئی اُمید نہ رکھیں۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے، درحقیقت آپ کے پاس اس ٹائپ کی کوئی چیز سِرے سے ہے ہی نہیں، وگرنہ ایسی احمقانہ باتیں نہ کرتے۔ اور عرفان جاوید کو تو آپ بخش دیں۔ اُن کا کوئی ناول نہیں، ایک بہت معلوماتی، منفرد بلکہ شاہ کار سلسلہ شایع ہو رہا ہے اور دوم، کہاوت کا مطلب بھی کم از کم آپ سے تو ہرگز نہیں پوچھا گیا تھا۔

                                                                                     فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

دیکھتی آنکھوں، سُنتے کانوں، قارئینِ جنگ اور پرستارِ طارق عزیز کی طرف سے آپ کو سلام! (طارق عزیز مرحوم کے اندازِ تخاطب سے آغازِ خط کرکے اِک ناآزمودئہ کار نے اس نابغۂ روزگار ہستی کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے) ماہِ شس کے ہفتہ دوم کا شمارہ پیشِ نظر ہوا۔ واہ، بُوم بُوم آفریدم سرِورقی نازنین کی ادائے مشرقانہ میں اِک خوئے دِل رُبانہ تھی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے حالیہ بجٹ 2020ء کا کچّا چٹّھا کھولتے ہوئے حکومت کو اس کا وعدئہ مکان پچاس لکھا اور عہدِ روزگارِ کروڑاں یاد کروایا، جو کورونا کی آڑ میں چُھپ رہی ہے۔ واقعی ’’خُوئے بدرا، بہانہ بسیار‘‘۔ عجائب خانہ میں کارخانۂ عرفان کی فیئر اینڈ لَولی پراڈکٹ یعنی ’’سفید کوّے‘‘ قسط شس میں ہش ہوگئے اور بالآخر ہمارے مغالطوں کے سارے توتے بھی اُڑ گئے۔ ویل ڈن اینڈ تھینک یو!سنڈے اسپیشل میں رئوف ظفر نے کورونا کارستانی کے ضمن میں باور کروایا کہ ’’سانپ کا سر دیکھتے ہی کچُل دینا چاہیے‘‘ مگر ہمارے دل بَر، جِند جان ’’مائٹی خان‘‘ بھاشن وِد آئوٹ راشن دیتے رہے۔ ’’یہ معمولی فُلو ہے گھبرانا نہیں‘‘(جب عوام نے زندہ دلی کا ثبوت دیا تو تبّرا کیا ’’جاہلون‘‘) مدیرہ صاحبہ کی حِس درد مندی اور رگِ ہم دردی کو سلام کہ خواجہ سرائوں کے مسائل و مصائب ’’رپورٹ‘‘ میں Quote کیے۔ ’’متفرق‘‘ میں پروفیسر انوار احمد زئی کے کرداری محاسن و علمی خدمات کو اُجاگر کیا گیا۔ انار کلی اسٹریٹ (اسٹائل) میں خُود کو مِس فِٹ جان کر ہم آپے ای گو، وینٹ، گون ہوگئے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس وارڈ میں ڈاکٹر صاحب کا کووڈ 19ماسک چڑھا کر تمباکو نوشوں کو ڈرانا عُمدہ رہا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی ڈال پر ڈاکٹر عزیزہ انجم کا افسانہ (اسٹیشن) کمال تھا۔ ویسےاز روئے تھیم کیا افسانے کا عنوان ’’آخری اسٹیشن‘‘ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مدرز ڈے میسیج شایع دیکھ کر ہمارا اثاثہ حیات (ڈاٹرز) اور متاع جاں (ڈیئرمدر) دونوں ہی خوش ہوگئے۔ اب بات میگزین کے دربارِ خاص (آپ کا صفحہ) کی۔ اس ہفتے کے دربارِ عام میں زبیر وارثی کی واپسی خوش کُن، قائم خانی کا نامہ اشتیاق متاثر کُن اور برقی کا تجاہلِ عارفانہ حیران کُن رہا۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: افسانے کا عنوان ’’اسٹیشن‘‘ ہی ہونا چاہیے تھا۔ ’’آخری اسٹیشن‘‘ ہوتا، تو پھر تو پوری کہانی سُرخی ہی میں مُک جاتی، پورا افسانہ پڑھنے کی زحمت کون کرتا۔

گوشہ برقی خُوطوط

  • ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے سلسلے وار مضامین کی اشاعت کیوں روک دی ہے آپ نے؟ (شاہ جی)

ج :اشاعت روکی نہیں۔ فی الحال میگزین کے صفحات کم ہوگئے ہیں، تو تمام سلسلے وقتاً فوقتاً شایع کیے جارہے ہیں۔

  • میرے والد جنگ اخبار کے تب سے قاری ہیں، جب یہ دو آنے کا ملا کرتا تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ اُن کا مَن پسند سلسلہ ہے۔ اس میں سلسلے وار مضامین کی اشاعت ایک قابلِ تحسین کاوش تھی، مگر پچھلے کچھ عرصے سے یہ مضامین شایع نہیں کیے جارہےتو والد صاحب سخت رنجیدہ ہیں۔ براہِ کرم ہفتہ وارسلسلے کا دوبارہ آغاز کیا جائے۔ (احمد علی)

ج: دیکھیے، کوئی بھی سلسلہ عُمر بھر تو جاری نہیں رہ سکتا۔ جب تک ممکن تھا، سلسلے وار مضامین شایع کیےجاتے رہے۔ اب بھی اچھے مضامین کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ والد صاحب سے کہیں رنجیدہ نہ ہوں، ہم اپنے محدود وسائل میں بھی اپنا بیسٹ ہی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  • میگزین میں منور راجپوت کا عید اسپیشل میں کورونائی عیدبہت پسند آیا۔ عجائب خانہ کا تو بہت شدّت سے انتظار رہتا ہے۔ ڈائجسٹ کی دونوں کہانیاں اعلیٰ تھیں۔ جہانِ دیگر نے تخیّل کی دنیا میں سیر کروائی۔ ناقابلِ فراموش کی کہانی ’’آہ نانی کی خوب صُورت بکری‘‘ لاجواب تھی۔ واقعی بڑوں کی نصیحت یاد نہ رکھی جائے، تو پچھتاوا ہی ہاتھ آتا ہے۔ (مصباح رانی، لاہور)
  • ’’مدرز ڈے‘‘ کا میگزین دیکھا، تو ماں کے عالمی دن کی مناسبت سے اس میں ماں کی ممتا، شفقت و محبت کو اُجاگر کیا گیا تھا۔ مجموعی طورپر جریدہ اچھا تھا۔ سفید کوّے، ڈائجسٹ، فیمیلزم بمقابلہ فیمینزم سب ہی تحریریں قابل داد تھیں۔ (دانیال حسن)
  • سلسلہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں میری بھیجی ہوئی تحریر شایع کرنے کا شُکریہ، جزاک اللہ الخیر۔ ایک اور تحریر بھیج رہی ہوں، اُمید ہے، قابلِ اشاعت ہونے کی صُورت میں اُسے بھی زیورِ طباعت سے آراستہ کیا جائے گا۔ (تانیہ شہزاد، رحیم پور، سیال کوٹ)

ج:جی، قابلِ اشاعت ہوئی، تو ضرور شایع ہوجائے گی۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین