• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب جمعرات کی دوپہر سے پہلے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز نظر بندی کیس میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی اور ان کی گرفتاری کا حکم دیا تو گویا ایک ایسا دھماکہ ہوا کہ جس سے پورا ملک ہل گیا۔ ایک ایسی ڈرامائی صورت حال پیدا ہوگئی جس کو سمجھنے اور اپنے احساس میں جذب کرنے کی مہلت اس لئے نہیں ملی کہ واقعات اور تبصروں کا ایک طوفان امڈ آیا۔ تیزی سے بدلتے ہوئے مناظر کا آغاز جنرل مشرف کے ”فرار“ سے ہوا کہ جب وہ اپنے حفاظتی عملے کے گھیرے میں عدالت سے نکلے اور انہیں بحفاظت گھر یعنی چک شہزاد کے شاہانہ فارم ہاؤس پہنچا دیا گیا۔
اس لمحے جس تجسس نے ہماری سوچ کو گدگدایا۔ کہ اب کیا ہوگا۔ وہ اب بھی قائم ہے اور دنوں، ہفتوں اور شاید مہینوں تک قائم رہے۔ اب کیا ہوگا؟ اس کا تعلق صرف جنرل مشرف کے قصے سے نہیں بلکہ پاکستان کی اس المیہ داستان سے بھی ہے کہ جس میں حکمرانوں کے عروج و زوال کے ساتھ ساتھ ”رعایا“ کی بے بسی بھی سلسلہ حوادث کی ایک کڑی رہی ہے۔ لیکن اس وقت تو ہم اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں اس رعایا کو ایک دن کی حکمرانی کا انتظار ہے۔ داستانوں میں بھی تو یہ ہوتا ہے کہ کسی درویش کو ایک دن کی حکمرانی مل جائے۔ لیکن 11مئی قریب ہوتے ہوئے بھی بہت دور ہے۔ جنرل مشرف کی گرفتاری کے عدالتی فیصلے نے اس تشویش میں اضافہ کردیا ہے کہ کیا واقعی انتخابات ہوپائیں گے۔ کیا کوئی بڑا واقعہ یا حادثہ یا سازش اس انتخابی عمل کا راستہ تو نہیں روک لے گی۔
میں نے جنرل مشرف کی گرفتاری کے حکم کو ایک دھماکہ کہا۔ ذرا پیچھے ہٹ کر، موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ہم مسلسل دھماکوں کے درمیان زندہ ہیں۔ منگل کے دن تو یہ ہوا کہ ایک خوفناک زلزلے نے ، جس کا مرکز پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقے میں سطح زمین سے میلوں نیچے تھا، ہمیں ہلاکر رکھ دیا۔ اتنی دور کراچی میں ہم نے اس کے جھٹکے محسوس کئے۔ اور اسی دن، پاکستان کی سرزمین پر خودکش اور بم دھماکے بھی ہوئے جن میں کم از کم بیس افراد ہلاک اور کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ انتخابی سرگرمیوں پر کئے جانے والے یہ حملے کسی حد تک روز کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ خیرپختونخوا میں خاص طور پر عوامی نیشنل پارٹی ان حملوں کا نشانہ بن رہی ہے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ ان حملوں کی دھمک کتنے وسیع پیمانے پر محسوس کی گئی۔
بظاہر تو ہم نے اپنے اپنے گھروں، دفتروں اور روزمرہ کی زندگی میں کسی لرزش کا سامنا نہیں کیا۔ یہ دھماکے، یہ ہلاکتیں، یہ تباہیاں تو ایک زمانے سے ہم برداشت کررہے ہیں۔ بریکنگ نیوز، کی آتش فشانی ہماری توجہ تو حاصل کرلیتی ہے مگر ہم بیٹھے اسے دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ بے بسی کا سا عالم ہے۔ ہم کیا کریں؟ امن و امان کی صورت حال ایک ایسے وقت میں تیزی سے بگڑی ہے کہ جب ہمیں سیاسی سرگرمیوں کے میلے میں، اپنی جمہوری آزادی کا جشن منانے کا موقع ملنا چاہئے۔ اگر کوئی جشن منارہا ہے تو وہ دہشت گرد ہیں۔ طالبان اس طرح انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں کہ وہ پورے انتخابی عمل کو سبو تاژ کرنے میں مصروف ہیں۔ جمہوریت کا مطلب ہی آزادی ہے۔ ایسی آزادی جو انسانی حقوق کی پاسداری کی ضمانت دے سکے۔ بنیادی انسانی حقوق کی جس طرح پامالی کی جارہی ہے ہمارے ملک میں اس کا جائزہ انسانی حقوق کے پاکستان کمیشن کی 2012 کی سالانہ رپورٹ میں شامل ہے۔
یہ صورتحال موجودہ سال کے ابتدائی مہینوں میں زیادہ خراب ہوئی ہے۔ جہاں تک 2012ء کی رپورٹ کا تعلق ہے تو اس سال فرقہ وارانہ دہشت گردی کے 213 واقعات میں 583 پاکستانی ہلاک ہوئے، غیرت کے نام پر 913 لڑکیوں یا عورتوں کو قتل کیا گیا۔ 14 صحافیوں کو ہلاک کیا گیا۔
میر امقصد یہاں صرف یہ اشارہ کرنا ہے کہ حالات بہت خراب ہیں اور ان حالات میں انتخابات کا ہونا ضروری ہوتے ہوئے بھی دشوار دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو دہشت گردی اور دھماکوں کو کسی سازش کی کڑی سمجھتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اگر انتخابات ملتوی ہوئے تو ایک ایسا سیاسی زلزلہ آسکتا ہے کہ جو اس نظام کی بوسیدہ عمارت کو ایک کھنڈر میں تبدیل کردے۔ اب یہ دیکھئے کہ موجودہ پیرپگارا بھی پیش گوئیاں کرنے لگے ہیں۔
ان کا بیان ہے کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ الیکشن قریب آنے پر حالات خراب ہوجائیں گے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ قتل عام میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ عمران خاں اور کئی دوسرے سیاسی رہنما ہمیں یہ دلاسہ دے رہے ہیں کہ انتخابات کے نتائج ہماری تقدیر بدل دیں گے۔ وہ ان نوجوانوں پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں جن کی تعلیمی، تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں کا کوئی ثبوت ہمیں قومی زندگی میں نمایاں دکھائی نہیں دیتا۔ چوہدری شجاعت حسین نے یہ کہا کہ انتخابات کے بعد خطرات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ کیسا معمہ ہے کہ انتخابات کے ہونے سے بھی ڈر لگے اور نہ ہونے کے خوف سے بھی آپ کانپ اٹھیں۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان کا معاشرہ ایک ایسے بحران سے دوچار ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ کام ہے جو سیاسی ہلچل کے دوران زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ پہلے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہے کہ ملک اس وقت مایوسی کی گرفت میں ہے۔ عمران خان کے ہوتے ہوئے بھی۔ خود انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ کئی لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف انتخابات میں نہ جیتی تو وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ لیکن اگر ملک اتنے برے حال میں ہے تو کوئی بھی جماعت اس کو بدلنے میں کیسے کامیاب ہوسکتی ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جمہوری سیاست تو ایک ارتقائی عمل ہے۔ اس عمل میں کسی ہمہ گیر سماجی انقلاب کی گنجائش کیسے پیدا ہوگی۔ مثلاً اگر ملک کی ایک کثیر آبادی ان پڑھ ہے یا عوام کے ایک بڑے طبقے کے ذہنوں میں عدم برداشت کا زہر پھیل چکا ہے تو اس کا سدباب کوئی کیسے اور کتنے دنوں میں کرے گا۔ ان معاملات پر سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ کچھ بنیادی ہیں جنہیں مزید ٹالا نہیں جاسکتا۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ قوم کی توجہ کسی ایک طرف ہو اور اچانک کوئی واقعہ یا پیش رفت اسے دوسری طرف کھینچ لے۔ جیسے اب جنرل مشرف کا معاملہ نگراں حکومت اور افواج پاکستان اور سیاست دانوں کے لئے ایک چیلنج بن کر سامنے آگیا ہے۔ اب تک، زیادہ اہمیت تو سپریم کورٹ میں جاری، ان کے خلاف غداری کے مقدمے کے اندراج کے لئے دائر درخواستوں کی سماعت کو حاصل تھی۔ گرفتاری کا حکم اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک اور مقدمے میں جاری کردیا۔ اس واقعہ کے آئینے میں ہم اپنی تاریخ کے کئی دور دیکھ سکتے ہیں۔ دو منتخب وزرائے اعظم کے ساتھ فوجی آمروں نے کیا کیا، اس کی تصویر سامنے آتی ہے۔ مشرف کا اپنا کیا رول رہا، وہ بھی سوچ کا ایک برمحل موضوع ہے۔ کہانی یا تو آپ الجھی ہے یا کوئی اسے الجھا رہا ہے۔ ہر لمحے نئی خبریں بن رہی ہیں۔
انتخابی عمل، جو بڑی حد تک صرف ٹیلویژن پر جاری ہے، حیرتوں اور انکشافات سے معمور ہے۔ صرف سیاست ہی نہیں موسم کی گرمی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ یوں بھی ، مئی میں انتخابات کا یہ پہلا تجربہ ہوگا۔ شاید بجلی کی خوفناک قلت سے عوام گرمی برداشت کرنے کی قوت حاصل کرسکیں۔ راتوں کو جاگ کر گزارنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سوچنے کا وقت مل جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ آپ سوچنا شروع کریں اور اس سوال سے آگے نہ بڑھ سکیں کہ اب کیا ہوگا؟
تازہ ترین