• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
ایک بستی بستے ہی بستی ہے، پہلے وہ زمین ایک خطہ، ایک گرائونڈ، ایک پتھریلی جگہ، ایک صحرا، ایک چٹان سے اٹی زمین ہوتی ہے کہ پتھر جس کے کاٹ کر اسے حسین وادی میں آبادیوں کیلئے رنگ دے کرپیش کردیا جاتا ہے۔ بہت سی بستیاں زمانے میں اپنے اپنے رنگ لے کرآباد ہوتی ہیں۔ جس کی تعمیر سے ہی خوابوں کی تعبیر جڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کا سحر انسان اوڑھ لیا کرتے ہیں اس بستی کے چپہ چپہ کو آنکھ کے منظر بنالیتے ہیں اس کی خوشبو کو اندر سمو لیتے ہیں کہ سونگھنا نہ پڑے بار بار، بستی کے رتجگے بھی روشنی پی پی کر دوسروں کو جگانے والے ہوتے ہیں کہ سونا منع ہے ۔حسین وادیوں اور بستیوں میں سویا نہیں جاتا، اس کےبر عکس ہر زاویئے کو آنکھ کا خاص منظر بنالیا جاتا ہے بعض بستیوں کے رتجگے، اجالے، سحر، خوشبو جسم و جاں میں ایک سنسنی سی پیدا کردیتے ہیں کہ نئی لذتوں سے آشنائی حاصل کرو۔ لبنان ایک ایسی تاریخی ملک ہے جو سیاست اور سیاحت کے عروج پر ہمیشہ رہا۔ یورپ سے لے کر خلیجی ممالک کے شیخ تک اسے اپنی تفریح گاہ سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ہر سال لوگ چھٹیاں منانے آتے ہیں۔ موج و مستی کے اس شہر بیروت میں کیا کچھ نظر نہیں آتا۔ بارہا بگڑتا سنورتا بیروت ہمیشہ دنیا کی توجہ کا مرکز رہا۔ امن کے بیروت کی شکل ملاحظہ کی جائے تو منفرد رنگوں سے سجی عمارات کہ جیسے قوس و قزح کے رنگوں سے ترتیب دی گئی ہو۔ بہت خوبصورت رنگوں سے مزین بیروت کی عمارات اپنی روشنی سے ہر کوچہ و گلی روشن کردے۔ یہاں کے لوگ اپنی اندرونی جنگ لڑ لڑکر رہ گئے، ملک میں اندھیرے بھی ہوئے تو اپنی خوشی کے چراغ سے سب روشن رکھا۔ یہ سچ ہے کہ اس نے اپنی منفرد پہچان رکھی، نفاست ور ثقافت کا چولی دامن کا ساتھ یہاں رہا اور کیسے نہ ہو بھلا کہ بھئی یہ خلیل جبران جیسے شاعر، فلسفی، مصور اور ڈرامہ نگار کا ملک ہے۔ اسی نے کہا تھا اس میں بسنے والوں کے لئے کہ ’’جب تک تم لبنان میں مقیم ہو اپنے ذہن کو کسی مسئلے میں نہ الجھانا، جہاں تک ممکن ہو اپنے وطن جنت نشاں میں ان دلفریب نظاروں سے جی بہلانا، اس کی مہک آفریں فضائوں میں سانس اور صنوبر و حور کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھائوں سے لطف لیتے رہو کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ کسی بھی وقت دامن چراسکتی ہے زندگی کی ساعتوں کو غنیمت سمجھو اور اپنی مادر وطن کی آغوش مقدس میں استراحت سے رہو، بھرے جنگلات میں گھومو پھرو، لبنان کی نقرئی صبحوں اور شہری شاموں کا نظارہ کرو، اس کی نغمہ بار آبشاروں اور گنگناتی ندیوں سےخظ اٹھائو خوش رہو کہ تمہیں اپنے وطن لبنان کی قربت میسر ہے‘‘۔بیروت ایک پرکشش لفظ ہے تو جانو کہ پھر شہر کیا ہوگا اور کیسا ہوگا؟ یقیناً اس کا حال اور خوبصورتی دنیا نے دیکھی مگر جن الفاظ میں خلیل جبران اس سے عقیدت رکھتا ہے وہ قابل بیاں ہے۔ اتنی کشش تو وہ لوگ بھی رکھتے ہیں جنہیں بیروت کی شام اور راتیں بہت پسند ہیں بلکہ دل لبھانے کا ساماں ہیں۔ دل لبھانے کا سماں ہر اس جگہ بندھ جاتا ہے جہاں لبنانی قوم جاکر بس جائے۔ ان کے لوازمات طعام دنیا بھر کے پسندیدہ ترین ہیں جسے دیکھو لبنانی کھانوں کا متوالا ہے۔ ہر ریسٹورنٹ ایک تو لبنانی کھانے اور اس کی ثقافت بھی پیش کرتا ہو تو آنے والا اس کے سحر سے نہ نکلے لبنان ایک ایسا ملک ہے جہاں سیاست سے زیادہ موج و مستی پر زیادہ دھیان رہتا ہے اور کیوں نا ہو کیونکہ ان کے عظیم دانشور خلیل جبران کا ہی تو کہا وہاں کے عوام کیلئے سب سے اہم ہے کہ بس اس کے سحر میں کھو کے رہو، اس کے مسائل بھول جائو۔ جی ہاں یہاں نہ بجلی ہے نا پانی وافر مقدار میں دستیاب ہے اس کے باوجود ہزاروں قسم کے سیاح لاکھوں کی تعداد میں یہاں کے سحر میں آکر کھو جاتے ہیں بیروت کے ریستوران، کیفیز اور میوزک کلبز بہت پرانے وقت سے مشہور ہیں۔لبنان کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ ہے اس کا قدیم نام البانیہ بھی ہے یہ بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر چھوٹا سا ملک ہے۔ شام اور اسرائیل کا پڑوسی ہے قدیم تہذیبوں کی سرزمین کہ جس کی آغوش میں مسلم اور مسیحی ایک ساتھ رہتے رہتے ایک ہی ثقافت اور خیالات میں ایک ہی تصویر نظر آنے لگے۔ ہزاروں سال مختلف قومیں ساتھ رہیں تو ایک دوسرے کا عکس دکھائی دینے لگتی ہیں وہی حال لبنان میں بسنے والوں کا ہے کہ سبھی ایک دوسرے کی ملتی جلتی تصویر اور عکس ہیں۔ مگر لبنان میں دوسرے ملکوں کا عمل دخل زیادہ رہا ہے تو پھر ہمیشہ سے خانہ جنگی کا شکار رہنے والا لبنان روم کی طرح بگڑتی سنورتی صورت حال کا شکار رہا۔ بیروت کی حسین وادیوں پر نظر رکھنے والوں نے اس کے خوبصورت قوس و قزح سے مزین خط و خال کو بارود کی بستی میں تبدیل کردیا ابھی چند دن پہلے والے رنگین سرزمین کو بارود کی بستی کا سیاہ و ملگجی رنگ دے دیا گیا۔ وہ بستی تباہ ہوئی تو چراغ بجھ گئے، چاند تاروں تک اس بستی کی تباہی کا دھواں اڑتے دیکھا گیا نہ کوئی جگنو کا روشنی رہی، نہ دن کے اجالے کی سیاہ رات میں تبدیل ہوگیا یکدم ’’بیروت‘‘۔ روشن سا شہر حسین وادی تصور، لفظ، معنی، منظر، حسین پیکر، لمس، سبھی لذتیں بس سیاہ راکھ کی منظر ہوکر رہ گئیں۔ اسکی حسین شامیں رتجگے، خوشبوئیں، یقین کے دھوئیں کی نذر ہوگئیں۔ جی ہاں یقین کرلیجئے کہ تاحد نگاہ تک جہنم ہی جہنم، خاک اور سیاہی، بس دو ہی رنگ بیروت کے ہوکر رہے۔ خلیل جبران نے جس کے خواب دکھائے تھے وہ منظر ہی بدل گیا۔ یہ بارود بیروت کی بستی کو شعلوں میں لپیٹ گیا یہ بھڑکتی آگ جانے کہاں جاکر رکے، کتنی نسلوں تک پہنچے، اہل لبنان کیلئے ایک نیا تازہ دکھ، ملال رنج، صدمہ کہ اب ان کی نئی نئی کئی کہانیاں ہونگی ہر متاثرین کی اپنی کہانی کہ بیروت بارود کی نظر ہوا۔ یہ سانحہ کبھی نہ بھولے گا اسکی کہانی روم سے جوڑی جائے گی کہ مانند ملک روم لٹی بیروت کی سلطنت۔
تازہ ترین