• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسپین میں آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کی جانب سے بنائی گئی قرطبہ مسجد کے نام کو ختم کرنے کی سازش کا انکشاف ہوا ہے اور سرکاری طور پر اب قرطبہ مسجد کو مسجد لکھنا بند کردیا گیا ہے، بلکہ اسے قرطبہ کیتھڈرل لکھا جارہا ہے۔ قرطبہ مسجد کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے ہر سال لاکھوں سیاح اسپین آتے ہیں جومسجد قرطبہ کی سیر کے لئے باقاعدہ طور پر آن لائن ٹکٹ خریدتے ہیں۔کچھ مدت پہلے تک مسجد کی سیر کے لئے بیچی جانے والی ٹکٹوں پر’’ قرطبہ مسجد ‘‘لکھا جاتا تھا، مگر اب مسجد کا نام ٹکٹوں سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اسپین کے مسلمانوں نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسپینش حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسجد کے نام کو ختم کرنے کی سازش کا نوٹس لے اور یہ بھی دیکھے کہ ایسا کون سے لوگ کر رہے ہیں اور اس سازش کے پیچھے ان کے کیا مقاصد ہیں کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو پھر اسپین میں موجود دوسری مساجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہیں بھی اس سازش کی زد میں آجائیں گی۔ مسلمانوں کے زوال کے بعد13ویں صدی میں مسیحیوں نے اسکے سینٹر میں ایک کیتھڈرل بنادیا تھا جس کے بعدمسجد کا نام’’ قرطبہ مسجد کیتھڈرل ‘‘پڑ گیا تھا، مگر اب مسجد لفظ ہٹایا جارہا ہے جو مسلمان برادری کے ساتھ زیادتی ہے۔ 711عیسوی میں مسلمان جرنیل طارق بن زیاد اپنے سات ہزار فوجی جوانوں کے ساتھ اسپین میں داخل ہوا ، طارق بن زیاد جبرالٹر کے مقام پر لنگر انداز ہوا تو وہاں اس نے اپنی کشتیاں جلا دیں اور اپنے جوانوں سے کہا کہ اب ہمیں فتح حاصل کرنی ہے یا شہادت اس وقت براعظم افریقہ سے مسلمانوں کے قبائل نے پانچ ہزار مزید فوجی جوان طارق بن زیاد کی مدد کو بھیج دیئے ،تقریباً12ہزار فوجیوں کے ساتھ طارق بن زیاد نے اس وقت اسپین کے بادشاہ’’ رودریگو‘‘ سے جنگ کی اور اسپین کے بادشاہ کے پاس ایک لاکھ سے زائد فوج ہونے کے باوجود اس کو شکست دی۔فتوحات کا یہ سلسلہ اگلے دس سے پندرہ سال تک جاری رہا اور مسلمان فوج اسپین کے مختلف علاقوں کو فتح کرتی چلی گئی۔جب مسلمان اکثریتی علاقے پر اپنا قبضہ مضبوط کر چکے تو ایک ریاست کا ڈھانچہ تشکیل دیا گیا جس میں قرطبہ شہر کو مسلمانوں کا پہلا دارالحکومت بنایاگیااوراسپین کا اسلامی نام الاندلس رکھ دیاگیا۔فتوحات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے اپنے مذہبی شعار کی ادائیگی کے لئے بڑی تعداد میںمساجد تعمیر کیں۔ان ہی مساجد میں سے مسلمانوں کے فن تعمیرکا ایک شاہکار مسجد قرطبہ بھی تھی۔ اسپین میں مسلمانوں کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد عیسائیوںکے دوبارہ قبضے سے مسجد قرطبہ کو دوبارہ سے کیتھڈرل چرچ میں تبدیل کرنے کی مذموم سازش پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔قرطبہ کی اعلیٰ مذہبی اتھارٹی (DIOCESE OF CORDOBA ) اس کے موجودہ تبدیل شدہ نام کیتھڈرل مسجد کو نئے نام کے ساتھ تبدیل کرکے صرف کیتھڈرل آف قرطبہ رکھنا چاہ رہی ہے۔اور اس بات کی اسپین میں بسنے والی مسلمان کمیونٹی شدت سے مخالفت کررہی ہے اس مخالفت میں تارکین وطن مسلمانوں جن میں مراکش ، پاکستان ، انڈیا ، بنگلہ دیش ، الجزائر ، گھانا ، گامبیا ، سینیگال ، نائجیریا اور براعظم افریقہ کے دوسرے ممالک کے باشندے بھی شامل ہیں۔لیکن اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس مخالفت کی سب سے زیادہ شدت اسپینش مسلمانوں میں پائی جاتی ہے جو کہ تبدیلی مذہب کے بعد مسلمان ہوئے ہیں یا ایسے جو پہلے سے موجود مسلمانوں کی اولاد ہیں۔اسپین میں صوبہ اندلس کی حکمران جماعت سوشلسٹ پارٹی اور بائیں بازوکی دوسری ترقی پسند جماعتیں جن میں آئی سی وی ، اسکیردا انیدا پیش پیش ہیں وہ اس تشخص کی تبدیلی کیخلاف ہیں کیونکہ قرطبہ شہر اس عظیم اسلامی شاہکار مسجد کی وجہ سے ہی عالمی سطح پر مشہور ہے اور قرطبہ شہر کے باسیوں کی کاروباری زندگی کا بڑا غالب حصہ دنیا بھر سے آنے والے ان سیاحوں کی آمدن پر منحصر ہے جو یہاں آکر مسجد قرطبہ کی سیر کرتے ہیں ۔دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک لاکھوں لوگ ہر سال اس عظیم شاہکار کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں وہاں قیام کرتے ہیں اور ملین یوروز کا فائدہ قرطبہ شہر کی آبادی کو پہنچتا ہے۔اسپین کی سیاسی جماعت پارتیدو پاپولر جو کہ دائیں بازو کی ہے وہ اس بات کی حامی ہے کہ مسجد قرطبہ کا نام کیتھڈرل قرطبہ رکھا جائے لیکن صوبائی خود مختاری ان عزائم کے آڑے آ رہی ہے کیونکہ اندلس کی مقامی حکومت ایسا نہیں چاہتی کہ اس مذہبی تنازع کی وجہ سے مسجد کا تشخص تبدیل ہو اور شہری آبادی کی کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ جائیں کیونکہ سیاح دنیا کے آٹھویں عجوبے مسجد قرطبہ کو دیکھنے بہت بڑی تعداد میں آتے ہیں۔اسی طرح اسپین میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی تنظیمات جن میں خونتا اسلامیکا دے اندلوسیا ،فیڈریشن آف اسلامک ایسوسی ایشنز FERRI اور UCIDE جو کہ اسلامک کونسل آف اسپین کی بنیادی رکن ہیں ،اسلامک کونسل آف کاتالونیا اور منہاج القرآن انٹرنیشنل اسپین شامل ہیں کوشاں ہیں کہ دنیا بھر کی مسلمان حکومتیں اور جمہوری مغربی حکومتیں اس عالمی ثقافتی ورثے کے تقدس کو پامال ہونے سے بچائیں۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بھی مسجد قرطبہ کو عالمی ثقافتی شاہکار کا درجہ دے رکھا ہے۔اندلس کی حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں قرطبہ کی عیسائی مذہبی اتھارٹیز سے گفت و شنید کا ارادہ رکھتے ہیں کہ انہیں اس بات پر قائل کیا جا سکے کہ یہ ایک حساس اور ثقافت کی بنیاد ی پہچان ہے۔اسپین کے شہر غرناطہ میں موجود الحمرا محل کے بعد مسجد قرطبہ سیاحوں کی دلچسپی کا دوسرا بڑا مرکز ہے۔2013میں مسجد کیتھڈرل آف قرطبہ کو بچانے کے لئے قائم ہونے والے ایک پلیٹ فارم مسجد قرطبہ سب کا ثقافتی اثاثہ ہے نے آن لائن تین لاکھ پچاس ہزار لوگوں کے دستخط لئے تھے ان کا کہنا تھا کہ جس دن مسجد کا نام اس عمارت سے غائب ہوا اور گوگل میں صرف کیتھڈرل آف قرطبہ کا نام سامنے آیا تو سیاحوں کی ساری دلچسپی جاتی رہے گی صرف کیتھڈرل کو دیکھنے کون آئے گا ؟ اور اس طرح قرطبہ شہر کے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔اسپین میں مقیم مسلمانوں کا کہنا ہے کہ سولہ سال میں تعمیر ہونے والی اس شاندار مسجد کا نام ایک ہی لمحے میں تبدیل یا ختم کر دینا مذہبی آزادیوں کے عالمی چارٹر کے سراسر خلاف ہے۔مسلمانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج مسجد قرطبہ کا نام تبدیل کیا گیا تو کل کواسپین کے مختلف شہروں قرطبہ ، غرناطہ ، طیطلیہ ،ثاراغوثا ، مرسیا ، ویلنسیا ، میڈرڈ ، بارسلونا ، طرطوسہ ، لوگرونیو ،علی کانتے ، کارتا خینا ، المیریا ، خیرونا ، تاراگونا ، اور دوسرے شہروں میں موجود مساجد کو بند کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آ سکتا ہے اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کے ارادوں کو تقویت مل سکتی ہےاس لئے اسپین میں مقیم مسلمانوں نے اقوام متحدہ اور بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ مل کر ہسپانوی حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ مسجد قرطبہ کا نام تبدیل نہ کرے اور اسپین میں مسلمانوں کی صدیوں قائم رہنے والی حکومت کے دور میں بنائی جانے والی اس اسلامی ثقافت کی علمبردار مسجد کی عمارت اور اس کے نام کو ہمیشہ کے لئے اسی طرح زندہ و جاوداں رہنےکے احکامات صادر فرمائے۔
تازہ ترین